معیشت

گوادر بندرگاہ افغانستان کو نیا تجارتی راستہ، نقل و حمل کے کم اخرجات فراہم کرتی ہے

عدیل سید

گوادر میں 29 مئی کو کرینیں مال بردار جہاز سے وہ سامان اتار رہی ہیں جسے 29 مئی کو افغانستان بھیجا جائے گا۔ [بہ شکریہ عبدل رزاق داود]

گوادر میں 29 مئی کو کرینیں مال بردار جہاز سے وہ سامان اتار رہی ہیں جسے 29 مئی کو افغانستان بھیجا جائے گا۔ [بہ شکریہ عبدل رزاق داود]

پشاور -- پاکستان نے صوبہ بلوچستان میں، اپنے گہرے پانیوں کی بندرگاہ والے شہر گوادر، کے راستے افغانستان سے تجارت کھول دی ہے جس سے دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان تجارت اور بحری تجارت میں اضافے کا راستہ ہموار ہو گیا ہے۔

مال بردار جہاز، سبولک ٹریڈیشن جو افغانستان لے جانے کے لیے 16,000 ٹن کھاد کے کر آیا تھا، 29 مئی کو گوادر پہنچا۔ اس بات کا اعلان تجارت و سرمایہ کاری کے لیے وزیراعظم کے ایک مشیر عبدل رزاق داود نے اسی دن اپنی ایک ٹوئٹ میں کیا۔

داود نے کہا کہ "یہ سمندری راستے سے افغانستان کے ساتھ پاکستان کی تجارت کے ایک نئے دور کا آغاز ہے"۔

انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان جانے والی کھاد کو گوادر کے علاقے میں تھیلوں میں بند کیا جائے گا تاکہ "مقامی افراد کی سماجی و معاشی ترقی میں مدد" فراہم کی جا سکے۔

مال بردار جہاز، سبولک ٹریڈیشن 29 مئی کو گوادر میں لنگرانداز ہے۔ [بہ شکریہ عبدل رزاق داود]

مال بردار جہاز، سبولک ٹریڈیشن 29 مئی کو گوادر میں لنگرانداز ہے۔ [بہ شکریہ عبدل رزاق داود]

کھادوں کے علاوہ، افغانستان گوادر سے چینی اور گندم، افغانستان-پاکستان تجارتی معاہدہ 2010 کے تحت وصول کرنے کے قابل ہو جائے گا۔

چائنا پاکستان اقتصادی راہداری کے چیرمین اور اطلاعات و نشریات کے لیے وزیراعظم کے خصوصی نائب لیفٹینٹ جنرل (ریٹائرڈ) عاصم سلیم باجوہ نے 30 مئی کو ٹوئٹ کیا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان گوادر کے ذریعے راستے کا آغاز "ایک خواب کی تعبیر" ہے۔

باجوہ نے مزید کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان گوادر کے ذریعے تجارت کا آغاز بہت سی تجارتی سرگرمیوں کو فروغ دے گا۔

کاروباروں کے لیے نئے مناظر

پاکستان اور افغانستان دونوں کی کاروباری برادریاں اس قدم کی تعریف کر رہی ہیں اور انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ اس پہل کاری سے دونوں ممالک کے درمیان تجارت اور سرحد کی دونوں اطراف کارکنوں کے ذریعہ معاش کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔

پاکستان-افغانستان مشترکہ ایوانِ صنعت و تجارت (پی او جی سی سی آئی) کی خیبر پختونخواہ شاخ کے ڈائریکٹر نعمان الحق نے کہا کہ "یہ بہت خوش آئند اور ضروری قدم ہے کیونکہ کراچی کی بندرگاہ پہلے ہی کام کے بوجھ تلے دبی ہے اور افغانستان کے لیے اشیاء کی کلیئرنس پر اور بھی زیادہ وقت لگتا ہے"۔

انہوں نے کہا کہ نئے تجارتی راستے کا پاک-افغان تجارت پر بہت مثبت اثر ہو گا اور تجارت کو فروغ دینے میں مددگار ہو گا جس سے دونوں ملکوں کے رہنے والوں کو فائدہ ہو گا"۔

انہوں نے مزید کہا کہ گوادر کے راستے تجارت، طویل المعیاد میں پاکستان اور وسطی ایشیائی ممالک کے درمیان افغانستان کے راستے کاروبار کے نئے راستے کھولے گی"۔

انہوں نے کہا کہ "کلیئرنس میں تاخیر کے باعث، افغانستان جانے والے 6,000 سے 7,000 کنٹینر، کراچی کی پہلے سے کام کے بوجھ تلے دبی بندرگاہ اور سرحدی چوکیوں پر پھنسے ہوئے ہیں جس سے تاخیر کے اخراجات اور خراب ہو جانے کے باعث کاروباروں کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔

نعمان نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ان میں سے کچھ تاخیر کا باعث کووڈ -19 کی عالمی وباء اور اس بیماری کو پھیلنے سے روکنے کے لیے انسدادی اقدامات کے باعث سرحد کو بند کرنا ہے۔

افغانستان کے صوبہ ننگرہار میں ایوانِ صنعت و تجارت کے نائب صدر حاجی زلمی عظیمی نے تجارتی راستے کی پہل کاری کی تعریف کی ہے۔

وہ توقع کرتے ہیں کہ اس سے افغانستان کے کاروباروں کو فائدہ ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ "گوادر سے تجارت افغانستان کے کاروباروں کے لیے اس بندرگاہ پر نقل و حمل کے کم اخراجات کے باعث زیادہ فائدہ مند ہے"۔

عظیمی نے اس امید کا اظہار کیا کہ گوادر سے پاکستان-افغانستان کی سرحد پر چمن سے سرحد پار کرنے لیے نقل و حمل کے اخرجات، کراچی سے چمن یا کراچی سے طورخم کے راستوں پر آنے والے اخرجات سے آدھے ہوں گے۔

'درست سمت میں قدم'

جلال آباد سے تعلق رکھنے والے تاجر اور افغانستان میں پی اے جے سی سی آئی کے بورڈ ممبر احمد شاہ یارزادہ نے کہا کہ "یہ ایک قابلِ قدر پیش رفت ہے اور اس سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت پر مثبت اثر ہو گا"۔

شاہ نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت گزشتہ چند ماہ سے کم ہو گئی ہے اور اس میں مثبت تبدیلی لانے کے لیے عملی اقدامات کی ضرورت تھی۔

انہوں نے شپنگ اور سرحدی چوکیوں پر ٹرانزٹ والے سامان کی جلد از جلد کلیئرنس کی اہمیت پر زور دیا کیونکہ تاخیر سے کاروباروں کو نقصان ہو رہا ہے۔

پاکستان کسٹم کلیئرنگ ایجنٹس ایسوسی ایشن کے چیرمین ضیاء الحق سرحدی نے کہا کہ "گوادر پاکستان اور افغانستان کے درمیان چمن کے راستے سامان کی نقل و حمل کے لیے ایک موزوں جگہ ہے اور اس سے دونوں ممالک کے درمیان تجارت کو فروغ ملے گا"۔

سرحدی نے سامان کی گوادر کے ذریعے افغانستان کو برآمد کو سراہا۔ انہوں نے کہا کہ اس کی پیکنگ اور ٹرکوں کے ذریعے نقل و حمل سے دونوں ممالک کے سفید پوش شہریوں کی مدد ہو گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ "گوادر کی بحری بندرگاہ کے ذریعے افغانستان کو تجارت کا آغاز درست سمت میں اٹھایا جانے والا قدم ہے جس کا مقصد پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت کو بہتر بنانا ہے اور یہ دونوں اطراف میں رہنے والے لاکھوں افراد کے لیے فائدہ مند ہو گی"۔

سرحدی نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت صدیوں پرانی ہے اور اس میں لاکھوں شہریوں کا مفاد ہے، اس لیے ایسے اقدامات جو تجارت کو بہتر اور وسیع کریں، ضروری ہیں اور دونوں ممالک اور علاقے کی آبادی کے بہتر مفاد میں ہیں"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500