دہشتگردی

بلوچستان میں دہشت گردوں کے حملے میں 7 سیکیورٹی اہلکار جاں بحق

از عبدالغنی کاکڑ

وزیرِ اعلیٰ بلوچستان جام کمال 19 مئی کو کوئٹہ میں صوبے کے اندر امن و امان کی صورتحال کے متعلق ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے۔ [عبدالغنی کاکڑ]

وزیرِ اعلیٰ بلوچستان جام کمال 19 مئی کو کوئٹہ میں صوبے کے اندر امن و امان کی صورتحال کے متعلق ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے۔ [عبدالغنی کاکڑ]

کوئٹہ -- حکام نے بتایا ہے کہ منگل (19 مئی) کو نیم فوجی دستوں پر بلوچستان میں دہشت گردوں کے حملوں میں کم از کم سات سیکیورٹی اہلکار جاں بحق اور دیگر چار زخمی ہو گئے ہیں۔

فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے ایک بیان کے مطابق، دہشت گردوں نے "بولان کے علاقے پیر غائب میں ایک دیسی ساختہ بم (آئی ای ڈی) کے ذریعے نیم فوجی دستوں کی ایک گاڑی پر حملہ کیا۔ ایک جونیئر کمیشنڈ افسر سمیت چھ اہلکار جاں بحق ہو گئے جبکہ دیگر چار شدید زخمی ہوئے۔"

آئی ایس پی آر کا مزید کہنا تھا، "میچ روڈ کی نکڑ پر ایک ریموٹ کنٹرول بم نصب کیا گیا تھا، اور نشانہ بننے والے اہلکار معمول کے گشت کے بعد چھاؤنی واپس جا رہے تھے۔"

ایک الگ واقعہ میں، دہشت گردوں نے ضلع تربت کے علاقے مند میں ایک دفاعی اہلکار پر حملہ کر دیا اور فرار ہونے سے قبل دفاعی افسر کو شہید کر دیا۔

19 مئی کو وزیرِ اعلیٰ بلوچستان جام کمال نے کہا، "سیکیورٹی فورسز پر بڑھتے ہوئے حملے ہماری خودمختاری اور سالمیت کے خلاف ایک گھناؤنی سازش کا حصہ ہیں۔"

ان کا کہنا تھا، "دہشت گردوں کو ہمارے دشمنوں کی سرپرستی حاصل ہے، جو کہ ہمسایہ ممالک کے ذرائع ابلاغ میں اور ان کے فوجی افسروں کے بیانات میں وسیع طور پر نمایاں ہے۔"

انہوں نے کہا، "ہم بلوچستان کو دشمن کی سازشوں کا نشانہ نہیں بننے دیں گے۔ جارحانہ عناصر اور ان کے سرپرستوں کے خلاف جنگ جاری رہے گی، اور وطن کے دفاع اور امن کے لیے سیکیورٹی فورسز کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔"

جام کمال نے جاں بحق ہونے والے اہلکاروں کے اہلِ خانہ سے تعزیت کی، ان کا مزید کہنا تھا، "پوری قوم جاں بحق ہونے والوں کے اہلِ خانہ کے غم میں شریک ہے۔"

بزدلانہ حملے

صوبائی وزارتِ داخلہ بلوچستان نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو صوبے کے تمام شورش زدہ علاقوں میں انسدادِ دہشت گردی کی کارروائیوں میں اضافہ کرنے کی ہدایت کی ہے۔

جام کمال کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا، "کوئٹہ میں 19 مئی کو [وزیرِ اعلیٰ جام کمال] کی زیرِ صدارت ہونے والے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں دہشت گرد حملوں کی حالیہ لہر کے بعد امن و امان کی مجموعی صورتِ حال کا جائزہ لیا گیا۔"

اس میں مزید کہا گیا کہ صوبے کے حساس علاقوں میں تعینات دفاعی اہلکار انتہائی چوکس ہو گئے ہیں اور قومی شاہراہوں پر اضافی دستے گشت کر رہے ہیں۔

بیرونِ ملک پاکستانی بلوچ اتحاد کے نائب چیئرمین میر خدا بخش مری نے کہا، "ملک دشمن عناصر نے بلوچستان میں دہشت گردی کی ایک نئی لہر شروع کر دی ہے، اور یہ حملے صوبے میں انسدادِ دہشت گردی کی حالیہ کارروائیوں کا ردِعمل ہو سکتے ہیں، جنہوں نے دہشت گرد گروہوں کو بڑا دھچکا لگایا ہے۔" یہ تنظیم، جس کی پاکستان اور بیرونی ممالک میں شاخیں ہیں، بلوچ علیحدگی پسندی کے خلاف لڑ رہی ہے۔

انہوں نے کہا، "میرے خیال میں ایسی بزدلانہ کارروائیاں صوبے کے مجموعی امن و امان کو خراب کرنے کی ایک کوشش ہیں۔ ان حملوں کے ذریعے، امن دشمن عناصر ریاست کو دباؤ میں لانا چاہتے ہیں،" ان کا مزید کہنا تھا کہ "صوبے میں نام نہاد علیحدگی پسندی کی تحریک ایک بار پھر ہمارے لوگوں کے خلاف نسل کشی کی مہم میں تبدیل ہو گئی ہے۔"

انہوں نے کہا، "دہشت گرد گروہ خود کو دوبارہ منظم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور گزشتہ دنوں میں ہونے والے بیشتر حملے کالعدم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کی جانب سے کیے گئے ہیں۔"

ان کا مزید کہنا تھا، "تنظیم کے حملوں میں اس وجہ سے بھی اضافہ ہوا ہے کیونکہ امریکی حکومت نے اس گروہ کو دہشت گرد تنظیم کے طور پر درج کر لیا ہے،" ان کا اشارہگزشتہ جولائی میں امریکی وزارتِ خارجہ کی جانب سے بی ایل اے کو ایک عالمی دہشت گرد تنظیم قرار دینے کی طرف تھا۔.

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

یہ بھارت کی وجہ سے ہے، لیکن اب طالبان نے بھارت کو دھمکی دی ہے کہ وہ عید الفطر کے بعد آ رہے ہیں، اس لیے غزوہٴ ہند کے لیے تیار رہیں۔ پاکستان زندہ باد

جواب