دہشتگردی

پاکستان نے دہشت گردی میں ملوث ہونے پر 3 سندھی عسکری تنظیموں پر پابندی عائد کر دی

از ضیاء الرحمان

جئے سندھ قومی محاذ-اریسار (جے ایس کیو ایم-اے) کے ارکان جنوری میں ضلع حیدرآباد میں ایک ریلی میں شریک ہیں۔ [ضیاء الرحمان]

جئے سندھ قومی محاذ-اریسار (جے ایس کیو ایم-اے) کے ارکان جنوری میں ضلع حیدرآباد میں ایک ریلی میں شریک ہیں۔ [ضیاء الرحمان]

کراچی -- پاکستانی حکام نے انتہاء پسندوں کے خلاف مجموعی طور پر کریک ڈاؤن کے جزو کے طور پر نسل پرست سندھی عسکری گروہوں پر نظریں جما لی ہیں۔

پاکستان کی وزارتِ داخلہ نے 7 مئی کو جئے سندھ قومی محاذ-اریسار (جے ایس کیو ایم-اے)، سندھودیش لبریشن آرمی (ایس ایل اے) اور سندھودیش ریولوشنری آرمی (ایس آر اے) پر ان کے صوبہ سندھ میں دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی وجہ سے پابندی عائد کر دی ہے۔

وزارت کا کہنا تھا، "یہ یقین کرنے کی قابلِ فہم وجوہات ہیں کہ ان تنظیموں کا دہشت گردی سے واسطہ ہے۔"

نیز ریلوے ٹریکس، گیس پائپ لائنوں اور بجلی کے کھمبوں کو حملوں کا نشانہ بنایا ہے۔سیکیورٹی فورسز پر حملے کیے ہیںشناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اسلام آباد میں وزارتِ داخلہ کے ایک اہلکار نے کہا کہ ایس ایل اے اور ایس آر اے صوبہ بھر میں پرتشدد کارروائیوں اور ٹارگٹ کلنگز میں ملوث رہی ہیں اور انہوں نے

وزارتِ داخلہ کی جانب سے 7 مئی کو جاری ہونے والے ایک نوٹیفیکیشن میں تین سندھی عسکری تنظیموں پر ان کے صوبہ سندھ میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہونے پر پابندی لگانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ [ضیاء الرحمان]

وزارتِ داخلہ کی جانب سے 7 مئی کو جاری ہونے والے ایک نوٹیفیکیشن میں تین سندھی عسکری تنظیموں پر ان کے صوبہ سندھ میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہونے پر پابندی لگانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ [ضیاء الرحمان]

نیم فوجی رینجرز 17 اپریل کو کراچی میں اپنے فرائض انجام دیتے ہوئے۔ [ضیاء الرحمان]

نیم فوجی رینجرز 17 اپریل کو کراچی میں اپنے فرائض انجام دیتے ہوئے۔ [ضیاء الرحمان]

اہلکار کا کہنا تھا کہ ایس ایل اے اور ایس آر اے کے دہشت گردوں نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے کریک ڈاؤن کو دھوکہ دینے کے لیے ایک سندھی نسل پرست سیاسی تنظیم، جے ایس کیو ایم-اے کا نام استعمال کیا۔

انہوں نے کہا کہ یہ ان تنظیموں کے دیگر کالعدم عسکری تنظیموں، بشمولبلوچستان لبریشن آرمی، جو کہ ہمسایہ صوبہ بلوچستان میں کام کرتی ہے، کے ساتھ رابطے ہیں۔

جے ایس کیو ایم-اے کے صدر، اسلم خیرپوری نے الزامات کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ ان کی تنظیم کا دہشت گردی اور عسکری گروہوں سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔

وزارتِ داخلہ نے مارچ 2013 میں ایک اور سندھی عسکری تنظیم، جئے سندھ متحدہ محاذ (جے ایس ایم ایم) پر پابندی لگائی تھی۔ جے ایس ایم ایم کے سربراہ شافی برفات کو شعبۂ انسدادِ دہشت گردی کی مطلوب ترین دہشت گردوں کی فہرست، ریڈ بُک میں شامل کیا گیا تھا۔

پُرتشدد کارروائیوں سے کنارہ کشی

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جے ایس کیو ایم-اے، ایس ایل اے اور ایس آر اے پر پابندی لگانا ناصرف صوبے میں امن و امان کو برقرار رکھنے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد کرے گا بلکہ نوجوانوں کو ایسے گروہوں سے کنارہ کشی کرنے کی ترغیب بھی دے گا۔

پرتشدد کارروائیوں سے کنارہ کشی کی ہے اور غیر متشدد سیاسی تنظیموں میں شمولیت اختیار کر لی ہےحالیہ مہینوں میں مختلف سندھی تنظیموں، بشمول جے ایس کیو ایم-اے، کے ارکان نے.

جے ایس کیو ایم-اے کے کئی قائدین نے 10 فروری کو ایک نیوز کانفرنس میں کراچی میں پاک سرزمین پارٹی میں شامل ہونے کے ارادے کا اعلان کیا اور محبِ وطن شہریوں کے طور پر زندگی گزارنے کا عزم کیا۔

اس سے پہلے، گزشتہ دسمبر میں، جے ایس کیو ایم-اے کے 11 قائدین کے ایک گروہ نے لاڑکانہ میں اعلان کیا تھا کہ وہ تنظیم کو چھوڑ دیں گے اور مرکزی دھارے کی سیاست میں حصہ لیں گے۔

ضلع دادو سے جے ایس ایم ایم کے ایک سابق کارکن جنہوں نے تنظیم کی علیحدگی پسند سیاست کو ترک کر دیا تھا، امجد خاصخیلی نے کہا، "تشدد، نسل پرستی، فرقہ واریت اور علیحدگی پسندی کی سیاست پاکستان میں ختم ہو رہی ہے کیونکہ یہ ملک کی خوشحالی اور ترقی کو نقصان پہنچا رہی ہے۔"

خاصخیلی کا کہنا تھا کہ سندھ میں علیحدگی پسند تنظیموں کے قائدین نے دہائیوں سے نوجوانوں کو استعمال کیا ہے، جبکہ خود وہ بیرونِ ملک شاہانہ زندگی کے مزے لوٹ رہے ہیں۔

انہوں نے یاد دلایا کہ جے ایس ایم ایم کے سربراہ برفات یورپ میں خود ساختہ جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔

سکھر سے تعلق رکھنے والے امن کے ایک کارکن، زرین ملاح نے کہا کہ سندھی نسل پرست تنظیمیں تیزی کے ساتھ حمایت کھو رہی ہیں کیونکہ نوجوانوں کو احساس ہو گیا ہے کہ علیحدگی پسند قائدین نے انہیں ریاست کے خلاف جزوی جنگ میں دھکیل دیا ہے۔

ملاح کا کہنا تھا، "ہمیں خوشی ہے کہ صوبہ سندھ میں نوجوان اب دہشت گردی کو مسترد کر رہے ہیں۔"

ان کا کہنا تھا کہ نوجوانوں کی خود احساسی دیرپا امن کو یقینی بنانے اور عسکری تنظیموں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کی ریاستی کوششوں کی کامیابی کی عکاسی کرتی ہے۔

داعش-خراسان کے ڈکیت بھی کمزور ہو گئے

تازہ ترین اقدام اس وقت ہوا ہے جب قانون نافذ کرنے والے اداروں نے مذہبی عسکری گروہوں، خصوصاً "دولتِ اسلامیہ عراق و شام" کی خراسان شاخ، جو داعش-کے بھی کہلاتی ہے، اور اندرونِ سندھ میں ڈکیتوں کے گروہوں کے نیٹ ورکس کو توڑ دیا ہے۔

فروری 2019 میں، قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اندرونِ سندھ میں داعش-کے کےدو رہنماؤں کو ہلاک کرتے ہوئےاس کے نیٹ ورک کو توڑ دیا تھا جن کے نام عبداللہ بروہی اور عبدالحفیظ پندرانی تھے۔

یہ دونوں، جن کا تعلق ضلع شکار پور سے تھا، صوبہ سندھ میں داعش کے بالترتیب سربراہ اور نائب سربراہ تھے۔

ستمبر 2019 میں، سندھ پولیس نے شکار پور میں پولیس مقابلوں میں کئی اعلیٰ افسران سے محروم ہونے کے بعدڈکیتوں کے خلافایک بھرپور کارروائی شروع کی تھی۔ اس کے بعد سے پولیس نے کئی ڈکیت کمانڈروں کو گرفتار اور ہلاک کیا ہے۔

ڈکیت -- وہ غنڈے جو سندھ کی پوری تاریخ میں فعال رہے ہیں -- دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ گھنے جنگلات میں رہنے کا رجحان رکھتے ہیں جو کہ شکار پور، جیکب آباد اور کشمور کے دور دراز کے اضلاع میں کچے کا علاقہ کہلاتا ہے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

اللہ پاکستان کو ان لوگوں سے بچائے۔ ہم اپنی پاک فوج کی حمایت کرتے ہیں۔ ہم دوسروں کو اپنی سرزمین اس گناہ کے لیے استعمال نہیں کرنے دیں گے۔ پاکستان ہمیشہ اللہ کی رحمت رہے گا۔ پاکستان زندہ باد۔ پاک فوج پائندہ باد

جواب