صحت

رپورٹ میں الزام لگایا گیا کہ بیجنگ نے قصداً کرونا وائرس پھوٹنے کا ثبوت مٹا دیا

پاکستان فارورڈ

3 مئی کو بیجنگ میں تیانانمین اسکوائر کے قریب نیم فوجی پولیس اہلکار گشت کر رہے ہیں۔ [نکولس/اسفوری/اے ایف پی]

3 مئی کو بیجنگ میں تیانانمین اسکوائر کے قریب نیم فوجی پولیس اہلکار گشت کر رہے ہیں۔ [نکولس/اسفوری/اے ایف پی]

ایک آسٹریلوی اخبار نے مہلک کوویڈ ۔-19 کے پھوٹنے کے آغاز تک پہنچنے والی ایک دستاویز کا حوالہ دیتے ہوئے خبر دی کہ حکومتِ چین نے قصداً کرونا وائرس کے پھوٹنے کے شواہد دبا یا مٹا دیے۔

سیچرڈے ٹیلی گراف کی جانب سے حاصل کی گئی15 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں کہا گیا کہ حکومتِ چین نے – "دیگر ممالک کو خطرے میں ڈالتے ہوئے—آواز اٹھانے والے ڈاکٹروں کو خاموش یا "غائب" کروا کر، تجربہ گاہوں میں کوویڈ ۔-19 کے شواہد ختم کروا کر اور ویکسین پر کام کرنے والے سائنسدانوں کو نمونے فراہم کرنے سے انکار کر کے اس وائرس کی خبر پر پردہ ڈالا"۔

اس رپورٹ کو امریکہ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، کینیڈا اور برطانیہ کی فائیو آئیز انٹیلی جنس ایجنسیز نے تالیف کیا تھا۔

ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) نے قبل ازاں 15 اپریل کو خبر دی تھی کہ کوویڈ ۔-19 کرونا وائرس پر چینی حکام کی جانب سے تقریباً ایک ہفتہ طویل خاموشی کا خمیازہ دنیا کو اس وبا کو جڑ میں ہی ختم کر دینے کا ایک موقع کھو دینے کی صورت میں ادا کرنا پڑا۔

چینی حکام نے خفیہ طور پر ادراک کر لیا تھا کہ ایک مہلک وبا پھوٹ پڑی ہے؛ تاہم، انہوں نے ووہان کو ایک بڑی تقریب کی میزبانی کی اجازت دی جس میں دسیوں ہزاروں افراد نے شرکت کی اور وائرس کو ہر سو پھیلا دیا۔

جانز ہاپکنز یونیورسٹی کے مطابق، پیر (4 مئی) تک کوویڈ ۔-19 کرونا وائرس اڑھائی لاکھ اموات اور 35 لاکھ انفکشنز کا باعث بن چکا ہے۔

شفافیت پر حملہ

ڈوسیئر کے مطابق، حکومتِ چین کے اقدامات "بین الاقوامی شفافیت پر حملہ" کے مترادف ہیں، جو دسیوں ہزاروں جانوں کے ضیا کا باعث بنا۔

ممکنہ طور پر اس دستاویز سے حکومتِ چین پر اس امر سے متعلق دباؤ میں مزید اضافہ ہو گا کہ وہ اپنے اقدامات اور ابتدائی بیانات کی وضاحت کرے۔

جیسا کہ بیجنگ کو اس بحران کا انتظام کرنے سے متعلق بڑھتے ہوئے دباؤ کا سامنا ہے،عالمی قائدین کرونا وائرس وبا سے متعلق حکومتِ چین پر ممکنہ حد تک شفاف رہنے کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں۔

ناقدین الزام لگا رہے ہیں کہ اس نے گزشتہ برس کے اواخر میں پہلی مرتبہ وبا پھوٹنے پر اس کے پیمانے اور وسعت سے متعلق کمی کر کے بتایا، جبکہ نظریات میں اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ ممکن ہے کہ یہ وائرس ایک تجربہ گاہ سے نکلا ہو۔

امریکی حکام نے 2018 میں ووہان، چین میں ایک تحقیقی تجربہ گاہ سے متعلق متعدد تنبیہات جاری کیں، جن میں کہا گیا کہ اس میں چمگادڑوں کے کروناوائرس پر خطرناک تحقیقات کے دوران ناکافی حفاظتی اقدامات تھے، یہ اسی قسم کا وائرس تھا جس نے 2020 میں دنیا کو درہم برہم کر دیا۔

یہ انکشافات ان اندازوں کو مزید مستحکم کرتے ہیں کہ نوول کروناوائرس کوویڈ ۔-19 کسی مرطوب بازار سے نہیں آیا، جیسا کہ چینی حکام بعض اواقات بجائے حکومتی مالیات شدہ تجربہ گاہ سے اسکے ظہور کے مخالف دعویٰ کرتے ہیں۔

صحت کے اعلیٰ ماہرین کا کہنا ہے کہاگرچینی حکام ابتدا میں نوول کروناوائرس سے متعلق شفاف رہتے تو آج دنیا کوویڈ ۔-19 سے لڑائی میں ایک نہایت بہتر صورتِ حال میں ہوتی۔

چینی حکام سے آنے والی معلومات کی صحت سے متعلق بین الاقوامی خدشات بڑھ رہے ہیں، بطورِ خاص اس صورت میں جبکہدنیا کا بیشتر حصہ حکومتِ چین کی جانب سے کرونا وائرس سے متعلق غلط معلومات کی مخالفت میں متحد ہے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500