ماحول

پلانٹ 4 پاکستان کرونا وائرس بے روزگاری میں شگاف ڈالے گا

اشفاق یوسف زئی

مانسہرہ میں 14 اپریل کو مزدور درختوں کی نرسری میں کام کر رہے ہیں۔ [کے پی حکومت]

مانسہرہ میں 14 اپریل کو مزدور درختوں کی نرسری میں کام کر رہے ہیں۔ [کے پی حکومت]

پشاور -- پاکستان نے اپنے 10 بلین ٹری سونامی (10بی ٹی ٹی) منصوبے کا دوبارہ سے آغاز کر دیا ہے جو کہ پلانٹ4 پاکستان کے نام سے بھی جانا جاتا ہے اور اس کا مقصد ان لوگوں کو ملازمتیں فراہم کرنا ہے جو کرونا وائرس کی عالمی وباء کے باعث اپنی ملازمتوں سے محروم ہو گئے ہیں۔

جنگل کاری کا یہ منصوبہ، جوستمبر 2018 میں شروع کیا گیا تھا، کا مقصد پانچ سالوں کے دوران 10 بلین درخت لگانا ہے۔

یہ کوشش مارچ میں کورونا وائرس کی وجہ سے پیدا ہونے والی تشویش کے باعث مارچ کے مہینے میں کچھ دیر کے لیے رک گئی تھی۔

وزیرِاعظم عمران خان نے 11 اپریل کو ٹوئٹر پر کہا کہ "پاکستان کووڈ-19 کے وقت میں اختراعات کر رہا ہے۔ دیہاڑی دار مزدوروں کے بے روزگار ہو جانے کے باعث، حکومت ان میں سے بہت سوں کو 10 بلین ٹری کیمپین کے حصہ کے طور پر ملازمت فراہم کر رہی ہے-- زندگیوں اور سیارے پر بیک وقت مثبت طور پر اثرانداز ہو رہے ہیں. ہر قدم اہم ہے"۔

سوات میں 14 اپریل کو مزدور درختوں کی نرسری میں کام کر رہے ہیں۔ [کے پی حکومت]

سوات میں 14 اپریل کو مزدور درختوں کی نرسری میں کام کر رہے ہیں۔ [کے پی حکومت]

وزیراعظم کے ماحولیاتی تبدیلی کے مشیر، ملک امین اسلم نے 20 اپریل کو کہا کہ "ہم 12 اپریل سے کارکنوں کو بھرتی کر رہے ہیں اور اب تک ہم نے 500,000 کو بھرتی کیا ہے اور انہیں مختلف اضلاع اور علاقوں میں بھیج دیا ہے"۔

انہوں نے کہا کہ "اس نئے قدم کا مقصد کاروباروں کو جاری رکھنا اور بے روزگار ہو جانے والے دیہاڑی داروں کی مدد کرنا ہے"۔

اسلم نے کہا کہ "اس سے نوجوانوں کی اقتصادی حالت کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی جو ایک صاف ستھرے ماحول میں کام کر رہے ہیں"۔

باجوڑ ضلع کے 22 سالہ شہری مشتاق خان نے کہا کہ اس منصوبہ نے "دیہاڑی دار مزدوروں کو اس وقت پیسے کمانے کے قابل بنایا ہے جب ملک نے کووڈ-19 کی عالمی وباء کے انسداد کے لیے مکمل لاک ڈاون نافذ کیا ہے اور اس کے علاوہ یہ نوجوانوں کو عسکریت پسندوں کے ہتھے چڑھ جانے سے روکا ہے جو بے روزگاروں کو دہشت گردی کے کاموں کے لیے استعمال کرنے کے لیے بدنام ہیں"۔

خان اس سے پہلے ایک مقامی ریسٹورانٹ میں کام کرتے تھے جو کہ عالمی وباء کے باعث بند ہو گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ درخت لگانے کا منصوبہ ان کے لیے نعمت ثابت ہوا ہے۔ "ہم اپنے مقامی علاقوں میں درخت لگانے سے تقریبا 1,000 روپے (7 ڈالر) روزانہ یا اس سے زیادہ کماتے ہیں"۔

محفوظ، نتیجہ خیز کام

خیبر پختونخواہ (کے پی) محکمہ جنگلات کے ایک افسر صدیق خان نے کہا کہ "کووڈ -19 کی وباء کے باعث لاک ڈاون کے ان مشکل دنوں میں، ہم نے غریب دیہاڑی دار مزدوروں کو دور سے کام کرنے کے بھرتی کیا ہے اور تمام حفاظتی اقدامات اور پروٹوکول پر عمل کیا جا رہا ہے"۔

انہوں نے مزید کہا کہ "روزانہ کی بنیاد پر، 20,000 سے زیادہ مزدور 10 بی ٹی ٹی کے تحت مختلف نرسریوں اور باغات میں کام کرتے ہیں"۔

خان نے کہا کہ ان سرگرمیوں کا صوبہ بھر میں آغاز ہو گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ تمام اضلاع، جن میں سابقہ قبائلی علاقے بھی شامل ہیں، اس پروگرام کا حصہ ہیں جو نوجوانوں کی بڑی تعداد کو متوجہ کر رہا ہے اور حکومت کے ایکگرین پاکستان کے منصوبے کو عملی شکل دینے میں مدد فراہم کر رہا ہے"۔

انہوں نے کہا کہ "ہم اپنے مقاصد کو حاصل کرتے ہوئے، بے روزگار ہو جانے والے مزدوروں کو ان کی دہلیز پر گرین ملازمتیں فراہم کر کے، اس بدقسمتی کو ایک موقع میں تبدیل کرنے کے عزم رکھتے ہیں"۔

یاسمین بی بی، جن کی عمر 28 سال ہے، اور جو کے پی کے شعبہ جنگلات کے تحت مانسہرہ میں ایک مقامی نرسری میں کام کرتی ہیں، کا کہنا ہے کہ وہ خوش ہیں کیونکہ وہ اس منصوبے سے قابلِ قدر آمدنی حاصل کر رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ "میں پچھلے کچھ دنوں سے ایک تازہ ماحول میں کام کر رہی ہوں۔ 100 سے زیادہ خواتین کو ملازم رکھا گیا ہے اور ہم کووڈ-19 کے بحران کے ختم ہو جانے کے بعد بھی اس کام کو جاری رکھنا چاہتے ہیں"۔

مشتری بیگم جو کہ سوات ڈسٹرکٹ میں ایک مقامی نرسری میں کام کرتی ہیں، نے کہا کہ وہ اور دوسری خواتین درخت لگاتی ہیں اور صبح کے وقت انہیں پانی دیتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ "میں نے جب سے نرسری میں کام کرنا شروع کیا ہے، ایک درجن سے زیادہ خواتین شریک ہو گئی ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ "ہمیں یاد ہے کہ تقریبا ایک دیہائی پہلے، جب طالبان غیر قانونی طور پر سوات پر حکومت کرتے تھے تو خواتین کے لیے گھروں سے باہر نکلنا مشکل تھا"۔

مردان کے ایک کسان طارق خان نے کہا کہ "وہ جنگلات اور نرسریوں میں کام کر رہے ہیں جہاں سماجی فاصلے کے اصول کی پابندی کی جاتی ہے تاکہ کووڈ -19 کے پھیلاؤ کو روکا جا سکے اور جرائم کی طرف جانے کی بجائے مفید سرگرمیوں میں شامل رہا جائے"۔

خان کے مطابق، غربت اور بے روزگاری کے باعث طالبان کے عسکریت پسند عام شہریوں کو بھرتی کرنے اور انہیں حکومت مخالف اور دہشت گردانہ سرگرمیوں کے لیے تعینات کرنے میں کامیاب رہے تھے"۔

انہوں نے مزید کہا کہ لاک ڈاون نے پاکستانیوں کو ان کی ملازمتوں سے محروم کیا ہے خصوصی طور پر دیہاڑی دار مزدوروں کو جو عسکریت پسند بن سکتے ہیں -- مگر حکومت کی طرف سے انہیں کاموں میں مصروف کرنا قابلِ ستائش ہے"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500