صحت

پاکستان چینی ساختہ کرونا وائرس ٹیسٹ کٹس پر عالمی خدشات میں شامل

پاکستان فارورڈ

23 مارچ، 2020 کو چین کے مشرقی انہوئی صوبہ میں ایک کارخانے میں کارکنان طبی دستانے تیار کر رہے ہیں۔ [ایس ٹی آر/ اے ایف پی]

23 مارچ، 2020 کو چین کے مشرقی انہوئی صوبہ میں ایک کارخانے میں کارکنان طبی دستانے تیار کر رہے ہیں۔ [ایس ٹی آر/ اے ایف پی]

کراچی – پاکستانی حکام نوول کروناوائرس کے خلاف لڑائی میں مدد کے لیے بنائی گئی چینی ساختہ طبی مصنوعات کی اثرانگیزی اور قابلِ اعتماد ہونے پر بڑھتے ہوئے خدشات میں دنیا بھر کے ساتھ شامل ہو گئے ہیں۔

حکومتِ چین مارچ سے اب تک بیرونی ممالک کو ماسکس اور دیگر حفاظتی آلات کی فروخت سے کھربوں ڈالر کما رہی ہے، تاہم ملکوں کی ایک بڑھتی ہوئی تعداد غیر معیاری یا ناقص طبی مصنوعات سے متعلق شکایات کر رہی ہے۔

بیجنگ نے اس بحران کے دوران ایک خیراندیش طاقت نظر آنے کی ایک کوشش میں افغانستان، پاکستان، وسط ایشیا، مشرقِ وسطیٰ اور یورپ سیمت دنیا بھر میں طبی آلات برآمد کیے ہیں۔

چین کے کسٹمز عہدیدار جن ہائے نے اپریل کے اوائل میں کہا کہ یکم مارچ سے اب تک 50 سے زائد ممالک سے آرڈرز کے جواب میں چین نے 3.86 کھرب ماسک، 37.5 ملین حفاظتی لباس، 16,000 وینٹیلیٹرز اور 2.84 ملین کووڈ-19 ٹیسٹنگ کٹس برآمد کی ہیں۔

18 اپریل کو کراچی میں ایک تربیتی سیشن میں ایک ڈاکٹر طبی عملہ کو چہرے کی شیلڈز اور دیگر ذاتی حفاظتی آلات استعمال کرنے سے متعلق تربیت دے رہا ہے۔ [پاکستان فارورڈ]

18 اپریل کو کراچی میں ایک تربیتی سیشن میں ایک ڈاکٹر طبی عملہ کو چہرے کی شیلڈز اور دیگر ذاتی حفاظتی آلات استعمال کرنے سے متعلق تربیت دے رہا ہے۔ [پاکستان فارورڈ]

18 اپریل کو نفاذِ قانون کے اہلکار کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کی غرض سے ایک لاک ڈاؤن کا نفاذ کرنے کے لیے کراچی کی ایک سڑک بند کیے ہوئے ہیں۔ [پاکستان فارورڈ]

18 اپریل کو نفاذِ قانون کے اہلکار کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کی غرض سے ایک لاک ڈاؤن کا نفاذ کرنے کے لیے کراچی کی ایک سڑک بند کیے ہوئے ہیں۔ [پاکستان فارورڈ]

تاہم، -- ہالینڈ، فلپائن، کروئشیا، ترکی اور سپین—سمیت متعدد ممالک نے چین کی جانب سے غیر معیاری یا ناقص طبی مصنوعات ارسال کیے جانے کی شکایت کی ہے۔

30-35 فیصد درست

پاکستان نے ملک میں کروناوائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے 28 مارچ کو چین سے ہزاروں ٹیسٹ کٹس اور حفاظتی لباس موصول کیے۔

حکومتِ سندھ کے ترجمان مرتضیٰ وہاب صدیقی نے 12 اپریل کو کہا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے حکومتِ سندھ کو ارسال کی گئی بیس ہزار کروناوائرس ٹیسٹ کٹس غیر معیاری تھیں۔

وہاب نے 12 اپریل کو ٹویٹ کیا، "ہمیں وی ٹی ایمز [وائرس ٹرانسپورٹ میڈیم] اور سویبز کے بغیر پہلے 3,000 اور پھر 17,000 ٹیسٹ کٹس موصول ہوئیں جو یہ ٹیسٹ کرنے کے لیے ضروری ہیں۔"

انہوں نے کہا، "دوسرے یہ کہ ان کٹس کا معیار طبی معائنہ کے لیے موزوں نہیں۔ یہ کٹس کے ساتھ دستیاب تشخیصی نوٹ پر بھی درج ہے۔"

وہاب کی جانب سے شیئر کی گئی ایک لیب ٹیسٹ رپورٹ میں کہا گیا، "ان کٹس کے تشخیصی نتائج صرف طبی حوالہ کے لیے ہیں اور انہیں طبی تشخیص کے واحد معیار کے طور پر استعمال نہ کیا جائے۔"

سندھ کے ایک اور وزیر ناصر حسین شاہ نے کہا کہ ان کے ساتھ کام کرنے والے طبی عملہ نے تصدیق کی ہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے فراہم کی گئی ٹسٹنگ کٹس 30 سے 35 فیصد درست نتائج دے رہی ہیں۔

وفاقی وزیرِ سائنس نے تصدیق کی کہ ایک حکومتی ادارے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈی آر اے پی) نے اس امر تک کی جانچ نہیں کی کہ آیا یہ چینی ساختہ کروناوائرس ٹیسٹنگ کٹس مصدقہ کمپنیوں کی جانب سے تیار کردہ ہیں یا نہیں۔

سما ٹی وی نے 17 اپریل کو خبر دی کہ چودھری نے ایک ٹی وی ٹاک شو کے دوران کہا، "جب میں نے [ڈی آر اے پی کے ڈائریکٹر] سے ان کٹس کی تصدیق سے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ انہوں نے اس کی جانچ نہیں کی کیوں کہ اس مقتدرہ کو ایسا کرنے کا کبھی نہیں کہا گیا۔"

پاکستان میں صحت کے دیگر عہدیداران نے تصدیق کی کہ وہ "غیر معیاری" چینی ٹیسٹ کٹس سے مطمئن نہیں۔

اسلام آباد میں صحت کے ایک عہدیدار نے میڈیا سے بات کرنے کی اجازت نہ ہونے کی وجہ سے اپنی شناخت پوشیدہ رکھے جانے کی شرط پر کہا، "ان کٹس سے حاصل ہونے والے درست نتائج کی شرح 30 فیصد رہی – جو وعدہ کے مطابق کی 80 فیصد کی شرح سے کم ہے۔"

انہوں نے کہا کہ حکومتِ پاکستان نے کٹس سے متعلق اپنی ناراضگی کا کھلے بندوں اظہار نہیں کیا کیوں کہ وہ بیجنگ کے ساتھ اچھے تعلقات برقرار رکھنا چاہتی ہے۔

دنیا بھر میں ناقص آلات

سپین، جمہوریہ چیک، ہالینڈ، سلوواکیا، ترکی اور برطانیہ سمیت متعدد یورپی حکومتوں نے اس وبا سے لڑائی کے لیے ترتیب دیے گئےچینی ساختہ آلات مسترد کر دیے۔

سپین کے میڈیا نے خبر دی کہ حکومتِ سپین نے 27 مارچ کو یہ امر سامنے آنے کے بعد 58,000 چینی ساختہ کرونا وائرس ٹیسٹنگ کٹس واپس لے لیں کہ ان کی شرحِ درستگی صرف 30 فیصد ہے۔

روزنامہ پراگ مارننگ نے 26 مارچ کو خبر دی کہ گزشتہ ماہ جمہوریہ چیک کی جانب سے چین سے خریدی گئی 54 ملین چیک کرونا (2.1 ملین ڈالر) مالیت کی 300,000 ریپیڈ کروناوائرس ٹیسٹ کِٹس میں سے 80 فیصد ناقص تھیں۔

ڈینمارک کی وزارتِ صحت نے 21 مارچ کو اعلان کیا کہ اس نے صفِ اول کی طبی ٹیموں میں تقسیم کرنے کے لیے چین سے 600,000 چہرے کے ماسک خریدے تھے۔

بی بی سی نے 30 مارچ کو ڈینمارک کے عہدیداران صحت کے حوالے سے خبر دی کہ، "لیکن ماسک پورے نہیں آئے اور ان کے فلٹرز نے حسبِ توقع کام نہیں کیا، باوجودیکہ ان کے ساتھ کوالٹی سرٹیفیکیٹ تھا۔"

دی آؤٹ لک نے 16 اپریل کو خبر دی کہ 5 اپریل کو بھارت میں پہنچنے والی 17,000 چینی کٹس مiں سے تقریباً 50,000 معیار کی جانچ میں ناکام رہیں۔

درایں اثناء، دی نیپال ٹائمز نے خبر دی کہ، نیپال کی وزارتِ صحت و آبادی نے یکم اپریل کو ہدایات دیں کہ ایک نجی کنٹریکٹر کی جانب سے چین سےدرآمد کی گئی کووڈ -19 فوری تشخیصی کٹس اپنے قابلِ اعتماد ہونے سے متعلق شکوک پیدا ہونے کے بعد استعمال نہ کی جائیں۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500