صحت

سوات میں ریڈیو کی لہریں جنہیں کبھی عسکریت پسند استعمال کرتے تھے اب انتہاپسندی، کورونا وائرس سے لڑ رہی ہیں

از ظاہر شاہ شیرازی

سوات میں ناشر اور ماہرین 6 اپریل کو ایک ریڈیو پروگرام کے دوران صحت کے امور پر تبادلۂ خیال کرتے ہوئے۔ [ظاہر شاہ شیرازی]

سوات میں ناشر اور ماہرین 6 اپریل کو ایک ریڈیو پروگرام کے دوران صحت کے امور پر تبادلۂ خیال کرتے ہوئے۔ [ظاہر شاہ شیرازی]

پشاور -- ریڈیو، جسے کبھی دہشت گرد وادیٔ سوات میں پراپیگنڈہ کرنے اور عوام کو خوفزدہ کرنے کے لیے استعمال کرتے تھے، اب وہاں کے عوام کو کورونا کی عالمی وباء کے متعلق تعلیم دے رہا ہے۔

پختونخوا ریڈیو ایف ایم 98 سوات نے 16 مارچ کو سوات کے مکینوں کو آن-ایئر صحت کے مشورے دینے اور انہیں جدید کورونا وائرس سے آگاہی دینے کے لیے پہلے ریڈیو کلینک کا انعقاد کیا تھا۔

ریجنل ڈائریکٹر ابلاغ ابنِ امین جو کہ اسٹیشن کے سربراہ بھی ہیں، نے کہا، "بکھری ہوئی آبادی والی پہاڑی وادی سوات میں عوام تک رسائی کا واحد ذریعہ ایف ایم ریڈیو ہے، کیونکہ اخبارات اور ٹی وی نیٹ ورک کووڈ-19 سے لڑنےکی آگاہی مہم کے دوران پوری وادی کا احاطہ نہیں کر سکتے اور نہ ہی لاک ڈاؤن کے دوران لوگوں کو صحت کی معلومات فراہم کر سکتے ہیں۔"

انہوں نے کہا، "ہم نے 16 مارچ کو ریڈیو کلینک شروع کیا تھا اور اس کے بعد سے آن ایئر جاتے رہے ہیں۔۔۔ کورونا وائرس کے متعلق آگاہی کے پیغامات کے علاوہ، ماہر ڈاکٹر بیماریوں کے متعلق براہِ راست مشورے دے رہے ہیں کیونکہ سامعین کو وائرس کے خلاف ملکی جنگ میں اپنے گھروں میں رہنے کی تجویز دی جاتی ہے۔"

سوات میں ایک ناشر 7 اپریل کو ایک ریڈیو پروگرام کے دوران علماء کے ساتھ مذہبی امور پر تبادلۂ خیال کرتے ہوئے۔ [ظاہر شاہ شیرازی]

سوات میں ایک ناشر 7 اپریل کو ایک ریڈیو پروگرام کے دوران علماء کے ساتھ مذہبی امور پر تبادلۂ خیال کرتے ہوئے۔ [ظاہر شاہ شیرازی]

تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)کے سابقہ امیر، مُلا فضل اللہ کے غیر قانونی ریڈیو کی جگہ لیتے ہوئے، ریڈیو اسٹیشن نے ماضی میں امن اور عدم تعصب کو فروغ دیا ہے۔

سنہ 2006 سے 2009 تک فضل اللہ سوات میں ایک غیر قانونی ریڈیو چینل چلاتا تھا، جس میں جبری اقدار کو فروغ دیا جاتا تھا اور رات کے وقت ٹی ٹی پی کی پابندیوں کی خلاف ورزی کرنے والوں کو قتل کرنے کے لیے ان کے ناموں کا اعلان کیا جاتا تھا۔

اسے افغانستان کے صوبہ کنڑ میں ہلاک کر دیا گیا تھاجون 2018 میں.

سنہ 2009 میں سوات میں آپریشن راہِ راست کے فوراً بعد فوج نے امن ریڈیو کے نام سے ایک ایف ایم ریڈیو اسٹیشن شروع کیا تھا، اور یہ سنہ 2017 تک کام کرتا رہا۔

امین نے مزید کہا کہ اس کے بعد سے پختونخوا ریڈیو ایف ایم 98 سوات نے امن اور ہم آہنگی کا مشن سنبھال لیا، اور آج ریڈیو کلینک نے ہر طرح سے کووڈ-19 کو شکست دینے کے لیے اپنا کام شروع کر دیا ہے۔

امن کو فروغ دینا

امین کا کہنا تھا کہ ریڈیو اسٹیشن نے مُلا فضل اللہ کے انتہاپسند نظریئے کا اثر زائل کرنے کے لیے باقاعدہ ایک کردار ادا کیا ہے، کیونکہ روشن خیال اور نوجوان صحافیوں کی آوازیں امن اور ہم آہنگی کا پیغام پھیلا رہی ہیں۔

سوات پریس کلب کے صدر شہزاد عالم، جن کی ماضی میں مُلا فضل اللہ کے ساتھ ملاقات ہو چکی ہے، نے کہا کہ ریڈیو ایف ایم 98 "سوات کے لوگوں کے حقیقی امن پسند چہرے کی نمائندگی کرتا ہے، جو مہمان نواز اور پُرامن ہیں۔"

عالم نے کہا، "ریڈیو کلینک ایک شاندار تجویز ہے اور اس نے ناصرف کووڈ-19 کے متعلق آگاہی کو بڑھا کر بلکہ لاک ڈاؤن کے دوران سواتیوں کے لیے طبی مشورہ اور ٹیلی میڈیسن فراہم کرتے ہوئے عوام الناس کی خدمت کی ہے۔"

ریڈیو کلینک کے میزبانوں میں سے ایک، شائستہ نے کہا، "ہمارے ہاں ایسی خواتین کالرز ہیں جو بزرگوں اور نوجوان سامعین جو فون پر طبی رہنمائی چاہتے ہیں، کے علاوہ اپنے بیمار بچوں کے لیے مدد کی متلاشی ہیں، اور چونکہ نشریات مالاکنڈ سے شانگلہ تک سنی جاتی ہیں، ہم کووڈ-19 پر عوام الناس میں آگاہی کا مقصد بھی حاصل کر رہے ہیں۔"

ایک اور میزبان، آر جے عصمت نے کہا، "ریڈیو ایف ایم سماجی تحریک اور کورونا وائرس کے خلاف لڑائی کے لیے ایک مؤثر ذریعہ ہے بلکہ یہ عوام الناس کو عسکریت پسندوں کے نظریات سے بھی آگاہی دیتا ہے جس نے وادی کا امن تباہ کیا ہے اور 2 ملین سے زائد باشندوں کو اپنے گھروں کو چھوڑ کر جانے پر مجبور کیا ہے۔"

انہوں نے کہا کہ یہ کلینک آگاہی پھیلانے، صحت کے متعلق مشورے دینے، اور گھروں میں رہنے اور سماجی فاصلہ رکھنے کی حکومتی ہدایاتکا اطلاق کروانے میں مدد دینے میں کثیر جہتی ثابت ہوا ہے۔

مشرق نیوز اور ریڈیو مشال کے ساتھ کام کرنے والے ایک پرانے صحافی، نیاز محمد نے کہا جبکہ مُلا ریڈیو کی پراپیگنڈہ نشریات نے سوات میں سامعین کو مذہب کے نام پر دھوکہ دیا اور انہیں جنگ اور عسکریت پسندی کی طرف مائل کیا، ایف ایم 98، جو ریاست چلا رہی ہے، بہتری کے لیے تبدیلی لا رہا ہے۔

نیاز نے کہا، "سوات جیسے خطے میں، جہاں آبادی بکھری ہوئی ہے، ریڈیو کی پہنچ بہت وسیع ہے، اور یہ عام دیہاتیوں کے لیے معلومات کا واحد ذریعہ ہے جو پڑھ لکھ نہیں سکتے۔۔۔ لہٰذا اگر یہ کورونا وائرس یا عسکریت پسندی کے خلاف ایک جنگ ہے، تو اس کی جیت پکی ہے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500