صحت

اعلی حکام کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کے چینی کور اپ نے عالمی وباء کو بھڑکایا

پاکستان فارورڈ

انتھونی فوچی جو کہ امریکہ کے الرجی اور وبائی بیماریوں سے متعلق نیشنل انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر ہیں، پانچ اپریل کو واشنگٹن میں کورونا وائرس ٹاسک فورس کی میٹنگ کے بعد ایک غیر تعین شدہ بریفنگ سے خطاب کر رہے ہیں۔ [ایرک بارادات/ اے ایف پی]

انتھونی فوچی جو کہ امریکہ کے الرجی اور وبائی بیماریوں سے متعلق نیشنل انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر ہیں، پانچ اپریل کو واشنگٹن میں کورونا وائرس ٹاسک فورس کی میٹنگ کے بعد ایک غیر تعین شدہ بریفنگ سے خطاب کر رہے ہیں۔ [ایرک بارادات/ اے ایف پی]

واشنگٹن -- اگر چین کے حکام نوول کورونا وائرس کے بارے میں شروع سے ہی شفاف ہوتے تو دنیا کووڈ-19 سے جنگ میں اس وقت زیادہ بہتر صورتِ حال میں ہوتی۔ یہ بات دنیا کی طرف سے اس وباء کو شکست دینے کے لیے کی جانے والی کوششوں کے نمایاں راہنما ڈاکٹس انتھونی فوچی نے کہی۔

دنیا بھر میں، تقریبا 1.3 ملین افراد کووڈ -19 کا شکار ہو چکے ہیں اور تقریبا 70,000 افراد ہلاک ہو گئے ہیں اور ان اعداد و شمار میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔

پی بی ایس کے نیوز آور کے ساتھ 3 اپریل کو ایک انٹرویو میں فوچی، جو کہ 1984 سے امریکہ کے الرجی و وبائی امراض کے قومی انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر رہے ہیں اور اس وقت امریکہ کی خصوصی کورونا وائرس ٹاسک فورس کا حصہ ہیں، نے اس وباء کے پھوٹ پڑنے کر پہلے کچھ ہفتوں کے بارے میں تفصیل سے بات کی۔

درج ذیل اس انٹرویو کا حصہ ہے۔ براہ مہربانی پورا انٹرویویہاں پر دیکھیں۔

جوڈی ووڈرف (اخباری نمائںدہ):

آپ کو پہلی دفعہ یہ احساس کب ہوا کہ یہ کچھ مختلف ہے، کہ جو کچھ ہوا ہے وہ صرف ایک اور وائرس نہیں ہے اور یہ کچھ زیادہ سنگین ہو جائے گا، بہت زیادہ سنگین؟

انتھونی فوچی:

اچھا، جنوری کے آغاز میں کسی وقت، جب یہ بات واضح ہو گئی کہ چین نے ابتدا میں جو یہ دعوی کیا تھا کہ یہ صرف ایک وائرس ہی ہے جو کہ ایک جانور ذخیرے سے انسانوں میں چلا گیا تھا اور یہ ایک انسان سے دوسرے انسان میں منتقل نہیں ہو رہا ہے، پھر یہ بہت جلدی واضح ہو گیا کہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے اور یہ ایک ایسا وائرس ہے جو انسان سے انسان میں منتقل ہوتا ہے۔

جوڈی ووڈرف:

میرے خیال میں آپ ان خبروں سے آگاہ ہیں کہ چین اس سب کے بارے میں آغاز سے شفاف نہیں تھا۔ اگرچہ اب جو سوال ابھر کر آ رہا ہے کہ لوگ پوچھ رہے ہیں کہ اگر وہ آغاز سے زیادہ شفاف رہتے تو اس سے وائرس کو پھیلنے سے روکا جا سکتا تھا، بات ختم، یا ہو سکتا ہے کہ زیادہ ممالک کو تیاری کے لیے مزید وقت مل جاتا؟

انتھونی فوچی:

اچھا، جوڈی، میں نہیں سمجھتا کہ اس وائرس کو پھیلنے سے روکنے میں کوئی بھی چیز مددگار ہو سکتی تھی۔ جب ایک دفعہ یہ معاشرے میں ابھر آئے، تو موثر طور پر اس کی پھیل جانے کی صلاحیت اور بیماری و اموات کی وجہ سے یہ آخیر ہے۔

مگر کیا مختلف ہو سکتا تھا؟ مگر یہ ایسی بات ہے کہ جس پر لوگ غور کرنے کی کوشش کریں گے، آپ کو پتہ ہے، جب یہ سب کچھ ختم ہو جائے گا، جب وہ اس بات کا پتہ چلانے اور تجزیہ کرنے کی کوشش کریں گے کہ حقیقت میں کیا ہوا تھا؟ کیا ایسا ہے کہ اگر ہمیں آغاز سے علم ہوتا کہ یہ انتہائی زیادہ منتقل ہو جانے والی بیماری ہے، جب یہ صرف چین میں ہی تھی، تو میرا خیال ہے کہ دوسرے ممالک چین سے دوسرے ملکوں کو سفر کو روکنے اور اس پر پابندی لگانے کی کوشش میں جلدی کرتے کیونکہ یاد رہے کہ اس کا آغاز چین سے ہوا تھا۔

اور پھر چین، اس حقیقت کو مدِنظر رکھتے ہوئے کہ چین کے باشندوں کی تعددا اتنی زیادہ ہے اور سفر کرنا اس سیارے پر ہماری روزمرہ کی موجودگی کا حصہ ہے، ہو سکتا ہے کہ اس امکان پر زیادہ توجہ دی جاتی کہ عمومی طور پر چین سے سفر کرنا مگر یقینی طور پر ووہان اور ہوبی ضلع سے، ایک ایسی چیز ہے جو کہ ساری دنیا میں ہی اس وباء کا آغاز کر دے گا۔

اس لیے، شفافیت میں یہ تاخیر، میرے خیال میں ممکنہ طور پر، اس پر اثر انداز ہوتی جیسا کہ میں نے ابھی کہا ہے، اس بات کی آگاہی کہ اس سے باقی دنیا میں بیج بویا جا سکتا ہے۔

جوڈی ووڈرف:

یہ سب کچھ چین کے حکام کی طرف اشارہ کرتا ہے،کیا ایسا نہیں ہے؟

انتھونی فوچی:

ایسا ہی لگتا ہے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500