دہشتگردی

کرونا وائرس کی عالمی وباء نے صحت کے معاملے میں طالبان کی منافقتں بے نقاب کر دیں

پاکستان فارورڈ

18 مارچ 2020 کو کابل میں کووڈ-19 کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے خلاف ایک انسدادی مہم کے آغاز سے قبل ایک رضاکار خطرناک مواد سے تحفظ فراہم کرنے والا سوٹ اور چہرے پر ماسک پہنے تیاری کرتے ہوئے۔ [وکیل کوہسار / اے ایف پی]

18 مارچ 2020 کو کابل میں کووڈ-19 کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے خلاف ایک انسدادی مہم کے آغاز سے قبل ایک رضاکار خطرناک مواد سے تحفظ فراہم کرنے والا سوٹ اور چہرے پر ماسک پہنے تیاری کرتے ہوئے۔ [وکیل کوہسار / اے ایف پی]

کابل -- تجزیہ کاروں اور شہریوں کا کہنا ہے کہ مہلک کرونا وائرس کی وباء کے درمیان طالبان کی جانب سے خود کو ایک ایسا گروپ جسے عوام کی صحت کی فکر ہے، ظاہر کرنے کی متواتر کوشش برہنہ منافقت ہے، کیونکہ اس گروپ نے کئی دہائیوں سے طبی عمارات پر حملے کیے ہیں، ڈاکٹروں کو قتل کیا ہے، اور عام شہریوں کو انتہائی ضروری ویکسین حاصل کرنے سے روکا ہے۔

طالبان کے قطر میں قائم دفتر کے ترجمان، سہیل شاہین نے 16 مارچ کو اپنے ایک ٹویٹ میں کہا کہ تنظیم "اپنے صحت کمیشن کے ذریعے صحت کی بین الاقوامی تنظیموں اور عالمی ادارۂ صحت کو کرونا وائرس سے لڑنے کے لیے تعاون اور رابطے کی اپنی تیاری کی یقین دہانی کرواتی ہے"۔

یہ بیان طالبان کی جانب سے افغانستان میں صحت کی بین الاقوامی کوششوں کی کئی برسوں تک مخالفت کی وجہ سے بالکل حقیقت کے برعکس ہے، اور خصوصاً طالبان کے گزشتہ اپریل کے رویئے سے، جب انہوں نے عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) اور ہلالِ احمر کو اپنے زیرِ تسلط علاقوں سے نکال دیا تھا۔

طالبان کی فکر مندی کے ایسے ہی ایک اظہار میں جو پچھلے سال بالکل غائب تھا، طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے 15 مارچ کو کہا، "افغانستان کی جیلوں میں تقریباً 40،000 لوگ رہ رہے ہیں جہاں کوئی صفائی یا صحت کی نگہداشت کی کوئی سہولیات نہیں ہیں، جس سے ایک سنگین خطرہ لاحق ہے۔"

طالبان کی جانب سے 27 مارچ کو جاری کردہ ایک فوٹو میں کرونا وائرس کی وباء کو روکنے میں مدد کرنے کے لیے گروپ کی مبینہ 'امدادی' کوششوں کو دکھایا گیا ہے۔ [فائل]

طالبان کی جانب سے 27 مارچ کو جاری کردہ ایک فوٹو میں کرونا وائرس کی وباء کو روکنے میں مدد کرنے کے لیے گروپ کی مبینہ 'امدادی' کوششوں کو دکھایا گیا ہے۔ [فائل]

17 مارچ کو سکھر، صوبہ سندھ میں چہرے پر ماسک پہنے سپاہی تفتان بارڈر کراسنگ کے ذریعے ایران سے واپس لوٹنے والے پاکستانیوں کے لیے ایک قرنطینہ کی عمارت کی طرف جانے والی سڑک پر پہرہ دیتے ہوئے۔ [شاہد علی / اے ایف پی]

17 مارچ کو سکھر، صوبہ سندھ میں چہرے پر ماسک پہنے سپاہی تفتان بارڈر کراسنگ کے ذریعے ایران سے واپس لوٹنے والے پاکستانیوں کے لیے ایک قرنطینہ کی عمارت کی طرف جانے والی سڑک پر پہرہ دیتے ہوئے۔ [شاہد علی / اے ایف پی]

کابل کی ڈاکٹر مینا ناز نے کہا کہ راہِ راست پر لائے گئے جنگجوؤں کو پتہ ہے کہ وائرس بڑی تیزی سے پھیلتا ہے اور یہ کہ جیلوں میں بند ان کے ساتھی اور آزاد ارکان یکساں طور پر محفوظ نہیں ہوں گے۔

ناز نے کہا، اسی لیے اب وہ محکمۂ صحت کے اہلکاروں کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہی جنگجو "افغانستان میں صحت کی بری حالت کے لیے ذمہ دار ہیں کیونکہ ڈاکٹر، طبی عملہ اور نرسیں ویکسین اور خدمات فراہم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔"

ان کا مزید کہنا تھا، "انہوں نے صحت کی سہولیات کو نقصان پہنچایا اور ویکسین دینے پر محکمۂ صحت کے اہلکاروں کو قتل کیا،جس کے وہ اسلامی تعلیمات کے خلاف ہونے کی دلیل دیتے ہیں۔"

محض پچھلے چھ ماہ میں، طالبان نے میدان وردک صوبے میں ایک سویڈش امدادی گروپ کی جانب سے چلائے جانے والے صحت کے درجنوں مراکز کو بند کر دیا، اور اس کے ایک ماہ بعد ایک کار بم دھماکہ کر دیا جس سے زابل میں ایک ہسپتال زمین بوس ہو گیا۔

گزشتہ کئی دہائیوں میں طالبان کی عوام کی صحت کو تباہ کرنے کی لاتعداد مثالوں میں سے یہ محض دو مثالیں ہیں۔

سرحد پار پاکستان میں، دیگر طبی عملے نے بیماری کے متعلق طالبان کی اچانک فکر مندیوں پر ایسی ہی تشویش کا اظہار کیا ہے۔

سوات، پاکستان میں ایک سابق ضلعی صحت افسر، ڈاکٹر عبدالرؤف نے کہا کہ افغان جیلوں میں قید اپنے 5،000 سے زائد ارکان کے لیے طالبان کی فکرمند ایک مذاق ہے کیونکہ جنگجوؤں نے ماضی میں صحت اہلکاروں کو ان علاقوں میں ویکسین دینے سے روکا ہے جن پر ان کا قبضہ تھا۔

رؤف کا کہنا تھا، "بیماری [کرونا وائرس] کے آنے سے پہلے طالبان دلیل دیتے تھے کہ انسدادی ادویات خلافِ اسلام ہیں۔"

کابل کے مقامی ایک سیاسی تجزیہ کار، امین اللہ شارق نے کہا، "وہ یہ حربہ افغانوں اور دنیا کو یہ بتانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں کہ انہیں افغانوں کی صحت کی فکر ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ انہیں کوئی پرواہ نہیں ہے ۔۔۔ کیونکہ وہ اپنے دہشت گرد حملوں کے ساتھ روزانہ افغانوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنا جاری رکھے ہوئے ہیں۔"

شارق کا کہنا تھا، "طالبان کے پاس تو اپنے زخمیوں کا علاج کرنے کی بھی صلاحیت نہیں ہے۔ وہ انہیں ہمسایہ ممالک میں صحت کے مراکز پر لے جاتے ہیں۔ وہ کرونا وائرس سے لڑنے کے کیسے قابل ہو گئے؟"

انہوں نے کہا، "اگر طالبان واقعی جانیں بچانا چاہتے ہیں، انہیں جنگ بندی پر اتفاق کرنا ہو گا اور امن قائم کرنا ہو گا اور حکومت کے ساتھ مل کر کرونا وائرس سے لڑنا ہو گا۔"

'کوئی منصوبہ نہیں'

کابل کے ایک مکین، 26 سالہ ناصر احمدی نے کہا کہ بین الاقوامی برادری سے مداخلت کرنے کے لیے کہنے کے پیچھے طالبان کے درپردہ مقاصد ہیں۔

انہوں نے کہا، "وہ بین الاقوامی تنظیموں سے محض پیسے وصول کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اسے اپنی دہشت گردی کی سرگرمیوں پر خرچ کریں گے۔"

احمدی کا کہنا تھا، "طالبان ڈاکٹروں کو ہلاک کر کے اور ہسپتالوں اور صحت کے کلینکوں کو تباہ کر کے ہزاروں جانوں کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔ اس تنظیم کے پاس جانیں بچانے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔"

"صحت کی لیبارٹریوں اور کلینکوں کی بجائے طالبان کے پاسمنشیات کی لیبز اور پیداواری مراکزہیں۔"

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر طالبان مدد کرنے کی خواہش رکھتے بھی ہیں، تو ان کے پاس کرونا وائرس سے لڑنے کی کوئی صلاحیت نہیں ہے۔

افغان وولیسی جرگہ (پارلیمان کے ایوانِ زیریں) میں صحت کمیٹی کے چیئرمین، ڈاکٹر یارباز خان حمیدی نے کہا، "طالبان ۔۔۔ کے پاس کوئی وسائل، تربیت یافتہ ڈاکٹر، طبی آلات، صحت کا عملہ، ہسپتال یا کلینک نہیں ہیں۔"

حمیدی کا کہنا تھا کہ عالمی وباء سے لڑنے کے لیے، طالبان کو "اپنے زیرِ تسلط علاقوں میں حکومت کی جانب سے ڈاکٹروں اور دیگر صحت اہلکاروں کو جانے دینے کی اجازت دینی ہو گی۔"

پراپیگنڈہ کی جنگ

منگل (24 مارچ) کو ٹیلی وژن پر نشر ہونے والی ایک تقریر میں افغان صدر اشرف غنی نے باغیوں کو ترغیب دی کہ اگر وہ دوسروں کو بیماری سے لڑنے میں مدد دینا ہی چاہتے ہیں تو وہ جنگ بندی کا اعلان کر دیں۔

ان کا کہنا تھا، "وہ لوگ جو طالبان کے قبضے والے علاقوں میں رہتے ہیں وہ افغان ہیں ۔۔۔ اور ان کی جانوں کا تحفظ کرنا میری ذمہ داری ہے۔ لہٰذا، میں طالبان سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ علمائے دین کے [طالبان سے امن قائم کرنے کے] مطالبے پر لبیک کہیں اور جنگ بندی کا اعلان کریں تاکہ ہم کرونا وائرس سے لڑ سکیں۔"

دیگر حکام کا کہنا تھا کہ طالبان کی صحت کی عالمی تنظیموں سے بیماری سے لڑنے میں مدد کرنے کی درخواست محض ایک پراپیگنڈہ ہے۔

وولیسی جرگہ میں صوبہ پکتیکا کے ایک نمائندے، خالد اسد نے کہا، "اگر طالبان کی نیت کرونا وائرس سے لڑنے کی ہوتی، تو وہ جنگ بندی پر اتفاق کرتے اور حکومت اور افواج کے ساتھ مل کر کام کرتے۔"

ان کا کہنا تھا کہ اس کی بجائے، "وہ دنیا کی توجہ اپنی طرف مبذول کروانے کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔"

اس کے برعکس، افغان حکومت بڑی شدت کے ساتھ عالمی وباء سے لڑتی رہی ہے۔

شارق نے کہا، "اس نے اس وائرس سے لڑنے کے لیے کروڑوں ڈالر مختص کیے ہیں۔ اس نے ان مریضوں کے علاج کے لیے مراکزِ صحت کھولے ہیں جن میں یہ وائرس آ گیا ہے اور اس کے مزید پھیلاؤ کو روکا ہے، جبکہ طالبان نے صرف نعرے مارے ہیں اور کوئی عملی کام نہیں کیا ہے۔"

افغان صحتِ عامہ کی وزارت کے ایک مشیر، وحید مجروح نے مزید کہا ہے کہ افغان حکومت نے دیگر اقدامات کے علاوہ، عوامی آگاہی کی مہمات چلائی ہیں، ہسپتالوں کے لیے خصوصی مواد مختص کیے ہیں، خصوصی ہسپتال قائم کیے ہیں اور کرونا وائرس پر قابو پانے کے خصوصی یونٹ قائم کیے ہیں۔

انہوں نے کہا، "حکومت نے کرونا وائرس کی عالمی وباء سے لڑنے کے لیے 25 ملین ڈالر مختص کیے ہیں۔"

اسلام کی غلط تشریح کرنا

افغان طالبان وہ واحد جنگجو نہیں ہیں جنہوں نے اچانک عوامی صحت میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔

15 مارچ کو گلف نیوز نے خبر دی تھی کہ "دولتِ اسلامیہ عراق و شام" (داعش) نے اپنے النباء نیوز لیٹر میں اپنے کارکنان کو ترغیب دی کہ وہ کرونا وائرس سے متاثرہ یورپ سے نکل جائیں، اور اسے "وباء کی سرزمین قرار دیا ہے"۔

دہشت گرد تنظیم، جو یورپ پر حملوں کی ترغیب دیا کرتی تھی، اب یورپ میں بسنے والے اپنے ان پیروکاروں کو جو کرونا وائرس سے بیمار ہو سکتے ہیں، ترغیب دے رہی ہے کہ وہ وہیں رہیں اور اس طرح بیماری کے پھیلاؤ کو روکیں۔

اس نے اپنے پیروکاروں کو ہدایت کی ہے کہ "جماہی لیتے وقت اور چھینکتے وقت اپنے منہ کو ڈھانپیں" اور اپنے ہاتھ باقاعدگی سے دھوئیں۔

عالمی ادارۂ صحت کے سابقہ ملازم، پشاور کے ڈاکٹر عمر خان نے کہا، "دنیا کو سمجھنا چاہیئے کہ جنگجوؤں کو ۔۔۔ عوام کی صحت کا کوئی لحاظ نہیں ہے بلکہ وہ خود محفوظ رہنا چاہتے ہیں۔"

ان کا مزید کہنا تھا کہ دنیا بھر میں مصروفِ عمل جنگجو گروپ اپنے ذاتی ایجنڈے کے لیے اسلام کی غلط تشریح کرتے رہے ہیں۔

انہوں نے کہا، "جنگجوؤں کو طبی امور کا کوئی علم نہیں ہے اور اس لیے وہ اسلام کے نام پر [عوام کو] گمراہ کرتے ہیں۔"

[پشاور سے اشفاق یوسفزئی اور کابل سے سلیمان نے اس رپورٹ میں حصہ لیا]

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 11

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

یہ تبصرہ بتاتا ہے کہ طالبان دشمنوں کو اس اعلان سے کتنی تکلیف ہوئی ہے ۔

جواب

بڑے افسوس سے کہنا پڑتا ہے ہے کہ اس طرح کا مضمون کسی مسلمان کا نہیں ہو سکتا یا تو امریکی تنخواہ دار یا یہودی تنخواہ دار کا ہو سکتا ہے طالبان اور امریکی جنگ اسلام اور کفر کا جنگ ہے ایک صف اسلام کی ہے اور دوسرا صف اسلام کا ہے ہے اور ظاہر بات ہے ہے کہ طالبان کے صف میں جو نہیں ہوگا وہ کفر کے صف میں ہوگا

جواب

ارے لکھاری! تم کیا نہیں جانتے کہ اب امن کے راستے میں اصل رکاوٹ کون ہے؟ یہ اشرف غنی نہیں چاہتا کہ امن ہو کیونکہ اسکی "میڈ-ان-امریکہ" گورنمنٹ ختم ہونے جا رہی ھے۔ اور تم لوگ چند ٹکروں کی خاطر کیا کیا لکھ دیتے ہو۔ پہلے تم لوگ امریکہ کی تعریفوں کے پل باندھتے نھیں تھکتے تھے اب جبکہ امریکہ زلیل و رسواء ہو کر نکل رہا ھے اب تم اشرف غنی کے پاؤں پر کر بیٹھ گئے لیکن ساری دنیا جان گئی کہ اسلام اور امن کےاصل دشمن تم لوگ ہو نہ کہ طالبان۔ ساری دنیا جب افغانستان میں امن کی بحالی کےلئے پر امید ہے تو تم جیسے لوگ لکھنے بیٹھ جاتے ہو اور لوگوں کے ذہنوں میں شبہات پیدا کر کے شیطان کا کام آسان کر دیتے ہو۔ حتیٰ کہ Wikipedia بھی طالبان گورنمنٹ (جس کی بنیاد ملا عمر نے رکھی تھی) کے صحیح حقائق لکھ رہا ھے لیکن ایک تم جیسے حقائق پر پردہ ڈالنے والے اور ایمان فروش لوگ مایوس اور نا مراد ہی ہو گے۔

جواب

عمدہ

جواب

سراسر بغض طالبان پر مبنی متعصبانہ تحریر ہے۔ طالبان جو کچھ بھی کر رہے ہیں وہ اپنے دفاع میں کر رہے ہیں۔ دنیا کو افغانوں کی صحت کی اتنی فکر ہوتی تو ان پہ ٹنوں کے حساب سے بارود نہ گرایا جاتا۔

جواب

AMMERICA DUIYA KASB SE BARRA TERRIOREST HAI

جواب

منشیات والا الزام ہے حالانکہ امریکہ کے جرنیل ملوث ہیں منشیات کے کاروبار میں۔ اور طالبان کی سابقہ حکومت میں ملا عمر کے ایک حکم پر منشیات کی پیداوار صفر ہو گئی ےھی۔ اور امن کی بات کرنے والے طالبان کے ساتھ کیے گئے معاہدوں پر عمل کریں نا تو اِن باتوں میں وزن ہو۔

جواب

Taleban ko jang krny k liye majboor kiya gaya taleban pr amreeka ne jang mosallat ki warna taleban se zayata insan dost group koi aur nhi. Jb k amreeka aur os k sathi kai ashro se duniya mn qatl e aam kr rahy aur ab insaniyat k dost bn ny ki koshish kr rhy hain

جواب

یہ سب بکواس ہے طالبان سے زیادہ مہزب اور کون ہے

جواب

سب بڑی منافق تو یہ این جی اوز ہیں۔جو حفاظتی ویکسین کی آڑ میں جاسوسی کا کام کرتی ہیں۔نرسوں اور اسٹاف کے روپ میں اگر جاسوس آئیں گے تو طالبان کو بھی حق حاصل ہے ان کی سرگرمیوں پر روک لگائیں

جواب

صحیح کہا آپ نے یہ ان جی اوز امریکہ کے لیے جاسوسی کا کام کر رہی تھی۔۔۔

جواب