حقوقِ انسانی

پاکستانی خواتین نے تشدد کو نظرانداز کرتے ہوئے خواتین کا عالمی دن منایا

ضیاء الرحمان اور اے ایف پی

سرگرم کارکن شیما کرمانی 8 مارچ کو کراچی میں عورت مارچ کے شرکاء سے خطاب کر رہی ہیں۔ [ضیاء الرحمان]

سرگرم کارکن شیما کرمانی 8 مارچ کو کراچی میں عورت مارچ کے شرکاء سے خطاب کر رہی ہیں۔ [ضیاء الرحمان]

کراچی -- کالعدم عسکریت پسند گروہوں کی طرف سے تشدد اور دھمکیوں کو نظرانداز کرتے ہوئے، ہزاروں پاکستانی خواتین 8 مارچ کو سڑکوں پر نکل آئیں تاکہ وہ خواتین کے حقوق کے لیے اپنی آواز بلند کر سکیں۔

خواتین کے حقوق میں تخفیف ان انتہاپسند گروہوں کے ایجنڈا کا بڑا حصہ رہا ہے جنہوں نے کئی سالوں تک پاکستان کو دہشت زدہ کر رکھا تھا۔

ہزاروں خواتین اور مردوں نے خواتین کے عالمی دن کے موقع پر، کراچی، سکھر، لاہور، اسلام آباد، ملتان اور دوسرے شہروں میں عورت مارچ میں شرکت کی۔

وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے ملک بھر میں مارچ میں شرکت کرنے والوں کے لیے سیکورٹی فراہم کی۔

کراچی کی خواتین دسمبر 2017 میں ٹی ٹی پی کی طرف سے پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر کیے جانے والے قتل عام کی تیسری برسی کے موقع پر مظاہرہ کر رہی ہیں۔ [ضیاء الرحمان]

کراچی کی خواتین دسمبر 2017 میں ٹی ٹی پی کی طرف سے پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر کیے جانے والے قتل عام کی تیسری برسی کے موقع پر مظاہرہ کر رہی ہیں۔ [ضیاء الرحمان]

عورت مارچ کی ایک شریک 8 مارچ کو سکھر میں ایک کتبہ اٹھائے ہوئے ہے۔ [ضیاء الرحمان]

عورت مارچ کی ایک شریک 8 مارچ کو سکھر میں ایک کتبہ اٹھائے ہوئے ہے۔ [ضیاء الرحمان]

کراچی میں، ہزاروں خواتین نے عورت مارچ میں شرکت کی، انہوں نے کتبے اٹھا رکھے تھے اور وہ خواتین کے حقوق، خواتین کے خلاف تشدد کو ختم کرنے اور تعلیم، صحت اور ملازمت کے یکساں مواقع کے لیے نعرے لگا رہی تھیں۔

کراچی میں مارچ کے منتظمین میں سے ایک قرآت مرزا نے کہا کہ ملک بھر میں منعقد ہونے والے مارچ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی خواتین کے مشترکہ محاذوں نے منتظم کیے تھے جن میں خواتین کے حقوق کی سرگرم کارکن، ٹرانسجینڈر اور غیر ثنائی افراد اور مذہبی اقلیتوں کے ارکان شامل تھے۔

مرزا نے کہا کہ "ہم سب پدری ڈھانچے کے خلاف کھڑے ہیں جس کا نتیجہ خواتین کے جنسی، اقتصادی اور ساختی استحصال اور عسکریت پسند گروہوں جن میں طالبان بھی شامل ہیں، کے ظلم کی صورت میں نکلتا ہے"۔

تشدد کو نظر انداز کرنا

اے ایف پی نے خبر دی ہے کہ اسلام آباد میں ایک مارچ کے دوران، اسلامیت پسند جوابی مظاہرین نے خواتین کے حقوق کے مظاہرین پر لاٹھیاں برسائیں اور پتھر پھینکے جس سے کچھ لوگ زخمی ہوئے اور ہجوم کو پولیس کی طرف سے مداخلت کرنے سے پہلے پناہ لینی پڑی۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل ساوتھ ایشیاء نے پاکستانی حکام سے مطالبہ کیا کہ وہ ان لوگوں کو سزا دیں جنہوں نے خواتین کے حقوق کے لیے مارچ کرنے والوں پر حملہ کیا۔

ایمنسٹی نے ٹوئٹ کیا کہ "عورت مارچ پر خوفناک حملہ جس میں پرامن مظاہرین پر پتھراو کیا جانا شامل ہے، اس ہی تشدد کی نمائندگی کرتا ہے جس کے خلاف خواتین آج احتجاج کر رہی ہیں"۔

پاکستانی کی انسانی حقوق کی وزیر شیریں مزاری نے ایک ٹوئٹ کیں کہا کہ "مقامی انتظامیہ ان لوگوں کے خلاف اقدامات کر رہی ہیں جنہوں نے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پرامن مظاہرین پر پتھروں، ڈنڈوں وغیرہ سے حملہ کیا"۔

اس سال، یہ مارچ پہلی بار سکھر اور ملتان میں منعقد ہوا جو کہ شمالی سندھ اور جنوبی پنجاب میں واقع شہر ہیں۔ یہ علاقے نہ صرف قبائلی جھگڑوں اور "غیرت کے نام پر قتل" کے لیے بدنام میں بلکہ کالعدم عسکریت پسند گروہوں کا گڑھ ہیں۔

سکھر شہر میں، مذہبی جماعتوں نے مارچ کو زبردستی روکنے کا عہد کیا تھا۔

تاہم، خواتین نے 7 مارچ کو شہر میں شَب بیداری کا انعقاد کیا اور اگلے دن سکھر اور اس کے قرب و جوار کے اضلاع جس میں گھوٹکی، شکارپور، جیکب آباد اور کشمور شامل ہیں، سے تعلق رکھنے والی خواتین کی بڑی تعداد نے مارچ میں شرکت کی۔

مارچ کی ایک منتظم لایبہ زینب نے کہا کہ ملتان میں، غریب ترین برادریوں سے تعلق رکھنے والے مرد و خواتین نے شرکت کی۔

انہوں نے کہا کہ "یہ پہلا موقع ہے کہ ملتان میں خواتین نے مارچ کیا جہاں خواتین کی ایک بڑی تعداد جمع ہوئی اور انہوں نے زیادہ قابلِ رسائی اور روادار پاکستان کا مطالبہ کیا"۔

خواتین کے خلاف طالبان کے مظالم

عالمی اکنامک فورم نے پاکستان کو 2020 کی اپنی صنفی خلیج کی رپورٹ جو کہ اقتصادی مواقع، تعلیم، صحت اور سیاسی خودمختاری کا اندازہ لگاتی ہے، میں دنیا میں تیسرا بدترین ملک قرار دیا تھا۔

تاہم، مشایدین کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں عسکریت پسندوں کے نیٹ ورکس کا خاتمہ کرنے سے خواتین کی خودمختاری میں اضافہ ہوا ہے جس میں عورت مارچ جیسی سرگرمیاں بھی شامل ہیں۔

حالیہ مہنیوں میں، خواتین کے لیے بہت سے اقدامات جن میں ویمن آن ویلز (ڈبلیو او ڈبلیو) مہم اور کھیلوں کے پروگرام شامل ہیں، ملک میں شروع ہوئے ہیں جن سے 2013 کے بعد سے ملک میں سیکورٹی کے میدان میں ہونے والی ڈرامائی پیش رفت کی عکاسی ہوتی ہے۔

زیادہ سے زیادہ خواتین ووٹ دے رہی ہیں اور انتخابات میں کھڑی ہو رہی ہیں جو کہ ایسا حق ہے جس سے طالبان نے ماضی میں خواتین کو محروم رکھا تھا۔

مسیحی کالج کی ایک طالبہ ثناء گل نے کہا کہ عسکریت پسند گروہوں جن میں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) بھی شامل ہے کے کمزور ہو جانے کے بعد، خواتین کو درپیش نئے مسائل میں "توہینِ رسالت" کے بے بنیاد الزامات پر تشدد کا نشانہ بنانا اور اقلیتی لڑکیوں کو زبردستی مسلمان کرنا شامل ہیں۔

گل کے انکل مارچ 2016 میں لاہور کے ایک باغ میں ٹی ٹی پی کی طرف سے کیے جانے والے ایک خودکش دھماکے میں ہلاک ہو گئے تھے جہاں مقامی مسیحی برادری ایسٹر منا رہی تھی۔ 70 سے زیادہ افراد جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے، ہلاک ہو گئے تھے۔

گل نے اس بات کا اضافہ کرتے ہوئے کہ بم دھماکے نے انہیں سیاسی طور پر زیادہ آگاہ اور ہر قسم کے جبر کے سامنے طاقت ور بنا دیا، کہا کہ "خواتین اور بچے طالبان کے تشدد کے سب سے بڑے متاثرین ہیں"۔

ٹی ٹی پی نے ماضی میں ایک متشدد مہم چلائی تھی تاکہ لڑکیوں کو اسکول جانے سے روکا جا سکے اور انہوں نے ملک کے مختلف علاقوں میں درجنوں اسکولوں کو بم دھماکوں اور حملوں کا نشانہ بنایا۔

اس کی لڑکیوں کی تعلیم کی مخالف مہم کو اس وقت بین الاقوامی توجہ حاصل ہوئی جب 2012 میں مسلح افراد نے وادیِ سوات، خیبر پختونخواہ میں تعلیم کی سرگرم کارکن ملالہ یوسف زئی کو گولی مار کر شدید زخمی کر دیا تھا۔

پاکستان میں2007 سے 2015 کے درمیان تعلیمی اداروں پر 867 حملے کیے گئے تھے جن کا نتیجہ 392 ہلاکتوں اور 724 افراد کے زخمی ہونے کی صورت میں نکلا۔ یہ بات عالمی دہشت گردی ڈیٹا بیس نے بتائی جسے میری لینڈ یونیورسٹی کے محققین بناتے ہیں۔ ان میں سے اکثر جرائم طالبان نے سر انجام دیے تھے۔

کراچی کے علاقے کٹی پہاڑی کے ایک اسکول کے پرنسپل سید لطیف نے کہا کہ ٹی ٹی پی اور دوسرے عسکریت پسند گروہوں نے ملک بھر میں اسکولوں، اساتذہ اور طلباء پر مختلف وجوہات کی بنیاد پر حملے کیے۔

ان کے اسکول کو ٹی ٹی پی کے عسکریت پسندوں نے 2012 اور 2013 میں تین بار نشانہ بنایا اور وہ چھہ سالوں کے بعد، گزشتہ اکتوبر میں ہی دوبارہ سے کھلا ہے۔

انہوں نے کہا کہ "ٹی ٹی پی نے لڑکیوں کو تعلین دینے پر اسکولوں کو نشانہ بنایا اور دھمکیاں دیں۔ ان کا بنیادی مقصد پاکستان میں تعلیم کو بہتر بنانے کی کوششوں کو ناکام بنانا تھا جہاں دنیا کی بدترین خواندگی کی شرح موجود ہے"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

تبصرہ نگار نے تین کونوں ( طالبان ' تعلیم ' دہشت گردی ) کو ملا کر خواتین کے حقوق کا رزلٹ نکالنے کی کوشش کی ہے ۔ مزید اس میں عیسائی لڑکیوں کو زبردستی مسلمان کرنے کا بھی تڑکا لگایا ہے ۔ کسی بھی صاحب فہم کے سمجھنے کے لیے یہ کافی ہے کہ کس طرح جھوٹ کی ملمع کاری کی ناکام کوشش ہے ۔ اس وجہ سے کہ ١ : اسلام نے جو حقوق عورت کو دیے ہیں آج کے خواتین کے حقوق کے علمبرداروں نے نہ دیے ہیں اور نہ دے سکتے ہیں ۔ ٢ : تعلیم کے متعلق اسلام مرد وزن کو یکساں درس دیتا ہے ۔ طالبان کی مخالفت اسلام کے خلاف ہونے کی نشانی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ جو کچھ نظر آرہا ہے درحقیقت وہ ہے نہیں ۔ یا تو طالبان اسلام۔پر نہیں۔اور اگر اسلام پر ہیں تو وہ طالبان نہیں یعنی طالبان کی صورت بنا کر اسلام میں داخل ہیں اور جس طرح چند عورتوں کو وہ۔بھی جو غیر مسلم ہیں سامنے لا کر اسلام کا نام لے کر اسلام پر کیچڑ اجھال ہیں اور اسلام کو بدنام کر رہے ہیں ۔مطلب وہ بھی صرف خواتین کے حقوق کا نام لے کر ڈرامہ کر رہی ہیں اور اس ڈرامے میں حملہ کروا کے بہت رنگ بھی بھرا گیا ہے ۔یہ کسی سے پوشیدہ نہیں ۔ ٣ : حقوق میں عورت کو چاہیے کیا اس کی تفصیل۔کیا ہے ذرا بھی واضح نہیں ہے ۔ ۴ : جن حقوق کی تفصیل لے کے سڑکوں پر آئی ہیں درحقیقت وہ حقوق ایسے ہیں جنہیں لے کر عورتیں دوبارہ سڑکوں پر آجائیں۔گی ان حقوق کے خلاف ۔

جواب