پشاور – عسکریت پسندوں کی جانب سے پاکستان کے شمال مغرب میں موسیقاروں کو ہدف بنائے جانے کے بعد کئی برسوں سے پشتون موسیقی کی منفرد جھنکاربندوقوں کی گولیوں اور سماعت صلب کر لینے والے دھماکوں میں ڈوب گئی تھی۔
لیکن، سیکیورٹی میں بہتری کے ساتھ، کئی صدیوں پرانی قبائلی روایت واپسی کی جانب گامزن ہے۔
کبھی خفیہ طور پر ہونے والے مظاہرہ ہائے فن واپس لوٹ رہے ہیں۔ آلاتِ موسیقی فروخت کرنے والی دکانیں کھل گئی ہیں اور دوبارہ پھل پھول رہی ہیں، جبکہ مقامی ناشرین اپنے پروگراموں میں متواتر ابھرتے ہوئے پشتو پاپ گلوکاروں کو لا رہے ہیں۔
اور کوک سٹوڈیوز کے معروف نشریہ میں سامنے آنے کے بعد پشاور کے خمریاں جیسے مقبول اور ابھرتے ہوئے بینڈ خال خال ملنے والی ملک گیر داد تک پہنچ گئے ہیں، جہاں انہوں نے روایتی آواز کو جدید ذوق کے ساتھ ضم کرتے ہوئے—پشتو موسیقی کو اس کے آبائی وطن سے بہت دور تک پھیلا دیا۔
صوبہ خیبرپختونخوا (کے پی) میں پاکستان کے قبائلی علاقہ جات کے قریب وارسک گاؤں کے ایک بزرگ اور پشتو شاعر فرمان علی شاہ کا کہنا ہے کہ ’موسیقی زندگی کا مصالحہ ہے۔۔۔ یہ زمانہٴ قدیم سے ہماری ثقافت کا حصّہ رہی ہے۔
پشتون موسیقی کی خاصیت تاروں والا وسط ایشیائی آلہٴ موسیقی، رباب ہے جسے بے لوث محبّت کے درد یا سیاسی انقلاب کے مطالبہ والی گلبہار شاعری سے مزین نغموں کے ساتھ طبلہ کی تھاپ پر بجایا جاتا ہے۔
وادیٴ سوات سے ایک رکنِ قومی اسمبلی اور رباب کے ایک سازندہ علی حیدر خان نے کہا، "صدیوں سے ہم ایک آزاد خیال معاشرہ رہے ہیں۔"
"ہمیں اپنے مذہب سے محبّت ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنی روایتی موسیقی سے بھی پیار ہے۔"
شدت پسندی نے موسیقی کی روایت کو خطرے میں ڈال دیا
ابھی بھی سستی سے رینگتی ہوئی شدت پسندی کی وجہ سے کئی دہائیوں سے اس روایت کو خطرہ درپیش ہے۔
1970 کی دہائی سے بنیاد پرست اسلام پسند تحریکوں نے افغانستان کے ساتھ سرحدی پشتون علاقوں میں رسوخ حاصل کرنا شروع کیا، اور موسیقی سے متعلقہ غیر منطقی اقدامات سمیت مذہب کی سخت توجیحات کو فروغ دیا۔
1979 میں افغانستان پر سوویت حملے اور 1990 کی طالبان حکومت کے ساتھ پرتشدد شدت پسندی کی جانب منتقلی تیز تر ہو گئی۔
2001 میں امریکہ کی جانب سے طالبان کا تختہ الٹے جانے کے بعد پاکستان میں بھی سرحد کے ساتھ ساتھ عسکریت پسندی پھوٹ پڑی۔ تحریکِ طالبان پاکستان (TTP) تشکیل پائی اور اس نے ملک کے قبائلی علاقہ جات اور کے پی کی پٹیوں پر قبضہ کر لیا۔
گلوکار گلزار عالم، جن پر تین مختلف اوقات میں حملہ ہوا اوربعد ازاں وہ اپنی جان کے خوف سے پاکستان چھوڑ کر چلے گئے، نے کہا، "شدت پسند خوف پیدا کرنے کے لیے معاشرے میں فنکاروں اور گلوکاروں کو قتل کر رہے تھے۔"
"اگر آپ ایک کمیونیٹی، قبیلہ یا نسلی گروہ سے ثقافت کو ختم کر دیتے ہیں، تو کمیونیٹی ختم ہو جائے گی۔"
خود کش حملوں کی لہروں سے ہونے والی تباہی کی وجہ سے عوامی مظاہرہ ہائے فن موقوف ہو گئے۔
عسکریت پسندوں نے سی ڈی مارکیٹس پر بمباری کی، آلاتِ موسیقی کی دکانوں کو تباہ کیا اور موسیقاروں کو دھمکایا یا سیدھا ہدف ہی بنا دیا۔
گلوکار اور موسیقار بڑے پیمانے پر بھاگ گئے، جبکہ دیگر کو مار ڈالا گیا۔
چند دلیروں نے بڑے ساؤنڈ سسٹمز، جو ممکنہ طور پر دہشتگردوں کو کھینچ لاتے، کے بغیر ہجروں اور شادیوں پر پر نجی محفلوں میں موسیقاروں کو مظاہرہٴ فن کے لیے دعوت دینا جاری رکھا۔
سفید سنگ گاؤں سے نور شیر، جن کا خاندان 25 برسوں سے وہاں ہاتھ سے رباب بنا رہاے ہے، نے کہا، "وہ لوگوں کو موسیقی روکنے کا کہ رہے تھے، لیکن گاؤں والوں نے کبھی ان کی نہ مانی۔"
اسی تباہی کے درمیان اپنے ملک میں تشدد سے فرار ہونے والے اور پشاور جیسی جگہ پر اس ثقافت کو زندہ رکھنے والے موسیقی کے سکول کھولنے والے افغان موسیقاروں کے مرہونِ منّت یہ صنفِ فن چلتی رہی۔
پاکستانی فوج نے 2014 میں عسکریت پسندوں کو نکال باہر کرنے کے لیے کوششیں تیز کرنا شروع کر دیں، اور ان برسوں کے بعد سے سیکیورٹی میں ڈرامائی بہتری آئی ہے۔
رباب بجانے والے اختر گل نے ایک ہجرہ – پشتون کمیونیٹی کا ایک روایتی مقام – پر مظاہرہٴ فن کے دوران کہا، "اب صورتِ حال اچھی ہے، بہت اچھی۔ ہم کہیں، جب بھی لوگ ہمیں مدعو کریں، بجا سکتے ہیں۔"
جیسا کہ ملک کے شمال مغرب میں موسیقی اپنے روایتی ترتیب میں لوٹ آئی ہے، کوک سٹوڈیو جیسے بارونق نشریوں نے تمام تر جنوبی ایشیا میں موسیقی کے دسیوں لاکھوں پرستاروں کو پشتون مظاہرہ ہائے فن سے متعارف کرانے میں مدد کی۔