سفارتکاری

پاکستانی قانون سازوں کا امریکہ طالبان امن معاہدہ کا خیرمقدم

اشفاق یوسفزئی

29 فروری کو دوحہ، قطر میں ایک امریکہ طالبان امن معاہدے پر دستخط کے دوران امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی سے بات چیت کر رہے ہیں۔ [شاہ محمود قریشی/ٹویٹر]

29 فروری کو دوحہ، قطر میں ایک امریکہ طالبان امن معاہدے پر دستخط کے دوران امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی سے بات چیت کر رہے ہیں۔ [شاہ محمود قریشی/ٹویٹر]

اسلام آباد – پاکستانی قانون ساز امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان ایک معاہدے کا خیر مقدم کر رہے ہیں،جو افغانستان میں امن لا سکتا ہے۔

افغانستان میں تقریباً دو دہائیوں کے تنازع کے بعد، امریکہ اور طالبان نے 29 فروری کو ایک معاہدے پر دستخط کیے۔

دوحہ میں دستخط ہونے والے اس معاہدے کے مطابق، امریکہ اور غیر ملکی افوج 14 ماہ کے اندر افغانستان سے اپنے فوجی نکال لیں گے، بشرطیکہ افغان طالبان مغربی پشت پناہی کی حامل حکومتِ کابل سے ایک کھلی بات چیت کرنے اور القاعدہ سمیت عسکریت پسند گروہوں سے لاتعلق ہو جانے کے وعدے پر قائم رہیں۔

یہ معاہدہ ایک ہفتہ طویل ایک عارضی اور محدود جنگ بندی کے بعد آیا جسے اس وقت سے افغان صدر اشرف غنی کی حکومت توسیع دیے جا رہی ہے، تاہم طالبان نے پیر (2 مارچ) کو کہا کہ وہ افغان سیکیورٹی فورسز کے خلاف جارحانہ کاروائی کا دوبارہ آغاز کرنے جا رہے ہیں۔

وزیرِ اعظم عمران خان نے ہفتہ کے روز ٹویٹ کیا، "ہم امریکہ اور طالبان کے مابین دستخط ہونے والے دوحہ معاہدے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ یہ افغان عوام کی مشکلات اور کئی دہائیوں کی جنگ کے خاتمہ کے لیے امن اور مفاہمت کے عمل کا آغاز ہے۔"

انہوں نے کہا، "میں نے ہمیشہ یہ نقطہٴ نظر اپنایا ہے کہ خواہ کتنا ہی پیچیدہ کیوں نہ ہو، ایک [سیاسی] حل ہی امن کے لیے بامعنی راستہ ہو سکتا ہے۔"

خان نے کہا، "اب تمام فریقین کو اس امر کو یقینی بنانا ہو گا کہ خراب کرنے والے دور رہیں۔ میری دعائیں ان افغان عوام کے لیے ہیں جنہوں نے چار دہائیوں کی خونریزی کی تکالیف اٹھائی ہیں۔ پاکستان اس امر کو یقینی بنانے میں اپنا کردار ادا کرنے میں پر عزم ہے کہ یہ معاہدہ برقرار رہے اور افغانستان میں امن لانے میں کامیاب ہو۔"

امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے امن معاہدہ پر دستخط سے ایک روز قبل تہران کو تنبیہ کی کہ وہ طالبان کے ساتھ معاہدہ کو خراب نہ کرے۔

پومپیو نے کہا، "خراب کرنے والوں کے طور پر افغانستان کے اندر سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی ایران کی تاریخ رہی ہے۔"

امن و مفاہمت

دیگر پاکستانی سیاستدانوں نے اس معاہدے کی حمایت میں آواز بلند کی۔

ڈان نے یکم مارچ کو حوالہ دیا کہ عوامی نیشنل پارٹی (ANP) کے صدر اسفند یار ولی خان نے کہا، "آج کا دن افغانستان کے عوام کے لیے تاریخی ہے۔ اس معاہدے سے جنگ سے تباہ حال اس ملک میں خونریزی رک جائے گی اور اس سے وہاں استحکام اور آسودگی کی راہ ہموار ہو گی۔"

انہوں نے کہا کہ افغان عوام نے امن کے لیے عظیم قربانیاں دی ہیں اور اس معاہدے سے نئی نسل کو یہ پیغام جائے گا کہ ایک پرامن افغانستان اب ایک حقیقت ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ معاہدہ نہ صرف افغانستان میں استحکام لائے گا، بلکہ تمام تر خطے میں امن کو فروغ دے گا۔

قومی وطن پارٹی (QWP) کے چیئرمین آفتاب احمد خان شیرپاؤ نے ایک بیان میں امن معاہدے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک اچھا اقدام تھا جو افغانستان میں بحالیٴ امن کے لیے قوتِ حرکت تعمیر کرنے میں مددگار ہو گا۔

شیرپاؤ نے کہا، "جنگ سے تباہ حال اس ملک میں بحالیٴ امن کی راہ ہموار کرنے کے لیے اس عمل [امن معاہدہ] پر مکمل عملدرآمد ہونا چاہیئے۔"

انہوں نے کہا، "اب وقت آ گیا ہے کہ اس عمل [امن معاہدہ] کو اپنے منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔" انہوں نے مزید کہا کہ بین الافغان بات چیت کی تسہیل کے لیے دنیا کو چاہیئے کہ افغان حکومت کے ساتھ شامل ہو۔

انہوں نے مزید کہا کہ دونوں فریقین کو محتاط ہونا چاہیئے کہ افغانستان میں حالات معمول پر لانے کے اس موقع کو ضائع مت کریں۔

جماعتِ اسلامی پاکستان (JI) کے سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ تمام فریقین نے یہ ادراک کر لیا ہے کہ افغانستان میں طویل تنازع کے حل کے لیے امن ہی واحد راستہ ہے۔

انہوں نے کہا، "ہمیں امّید ہے کہ افغان دھڑے ایک باہمی سمجھوتے پر پہنچنے کے لیے اس موقع سے فائدہ اٹھائیں گےاور خطے میں ترقی و پیش رفت کے ایک دور کی جانب رہنمائی کریں گے۔"

جمیعت علمائے اسلام (JUI-S) (سمیع) کے سربراہ مولانا حامد الحق نے کہا کہ اسلام میں دہشتگردی کے لیے کوئی جگہ نہیں اور یہ نیا معاہدہ افغانستان، پاکستان اور امریکہ کے عوام کے مفاد میں ہے۔

انہوں نے کہا، "ہم دنیا پر زور دیتے رہے ہیں۔۔۔ کہ جنگ اس بحران کا حل نہیں ہے اور صرف مزاکرات ہی امن لا سکتے ہیں۔ عوام کو افغانستان میں دیرپا امن کی دعا کرنی چاہیئے۔"

انہوں نے زور دیا کہ اب طالبان اورافغان حکومت کے مابین بامعنی مزاکرات ہونے چاہیئں تا کہ دوحہ معاہدہ کے مطلوبہ نتائج حاصل کیے جا سکیں۔

پاکستان حمایت جاری رکھے گادوحہ میں معاہدے پر دستخط کی تقریب میں شرکت کرنے والے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے ٹویٹ کیا کہ پاکستانایک مستحکم، متحد اور جمہوری افغانستان کی حمایت جاری رکھے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ جنوبی ایشیا میں امن و استحکام کے لیے نہایت اہم ہیں اور پاکستان امن و استحکام کے لیے کاوشیں کرتا رہے گا اور ان کی قیادت بھی کرتا رہے گا۔

انہوں نے کہا کہ دوحہ معاہدہ افغانستان، خطے اور اس سے بھی آگے کے لیے علامتی طور پر اور عملی طور پر اہم ہے۔ "یہ افغانستان میں امن و مفاہمت کے حتمی حدف کی جانب پیش قدمی میں امریکہ اور افغانستان کی جانب سے ایک نمایاں اقدام ہے۔"

قریشی نے افغانستان کو تعمیرِ نو کے آغاز کے قابل بنانے کے لیے مسلسل بین الاقوامی حمایت کی ضروت کو خط کشیدہ کیا۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 2

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

سوچیں مت، معاہدہ بارآور ہو گا

جواب

یہ امن معاہدہ افغانستان کے لیے شاندار مستقبل رقم کر رہا ہے۔ امن کی حکمرانی سے قبل بہت سی مشکلات آئیں گی اور ایک مشترکہ مقصد اور منزل کے احساس کے ذریعے ان پر قابو پالیا جائے گا۔ تمام فریقین کو اپنے مستحکم مقامات سے ہٹنا ہو گا، جو کہ قومی یکجہتی کی راہ میں حائل تھے۔ جیسا کہ پہلے جنگ کرنے والے دھڑے امن کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، انہیں پاکستان اپنی کاوشوں میں نیک نیتی سے حمایت کرتا ملے گا۔ انشااللہ حتمی نتیجہ افغانستان پاکستان اور تمام تر خطے کے لیے اچھا ہو گا۔

جواب