پشاور – اب خیبر پختونخوا (کے پی) پولیس شہریوں کے مسائل کے حل میں تیزی لانے کے لیے براہِ راست اور آن لائن کھلی کچہریوں کے ذریعے عوام سے شکایات وصول کر رہی ہے۔
عسکریت پسندی کے خلاف پاکستان کی طویل جدوجہد کے دوران دہشتگردی سے بدترین متاثرہ اس صوبے میں یہ کاوش پولیس اور شہریوں کے مابین رابطے میں تیزی سے معاون ثابت ہو رہی ہے۔
دہشتگردوں کی پہنچ کی ایک ہولناک یاد دہانی میں، مسلح افراد نے منگل (25 فروری) کو ضلع سوات میں صحافی جاوید اللہ خان کو قتل کر دیا۔ عسکریت پسندی کے بدترین سالوں میں خان نے ٹی ٹی پی مخالف قبائلی لشکروں کے ارکان کے طور پر تحریکِ طالبان پاکستان (TTP) سے لڑنے والے اپنے متعدد رشتہ دار کھو دیے تھے۔
کے پی میں تا حال شورشیوں کے خلاف سیکیورٹی اقدامات اور دہشتگردی کے نتائج بڑے پیمانے پر دکھائی دیتے ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہاسی لیے ایسے اقدامات نہ صرف حکومت پر عوام کے اعتماد میں اضافہ کرتے ہیں، بلکہ معاشرے میں جرائم اور عسکریت پسندی کی حوصلہ شکنی بھی کرتے ہیں۔
کے پی کے انسپکٹر جنرل پولیس (IGP) ثنااللہ عبّاسی نے 17-20 فروری کی ایک ملک گیر پولیو مہم کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، "ہم نےپولیو ویکسینیشن مہمکے لیے سیکیورٹی انتظامات اور بطورِ کل امنِ عامہ کی صورتِ حال کا جائزہ لینے کے لیے ایک ویڈیو لنک کے ذریعے متعلقہ ریجنل پولیس آفیسرز اور ڈسٹرکٹ پولیس آفیسرز کے ساتھ اجلاس منعقد کیے۔"
پاکستان نائجیریا اور افغانستان سمیت ان تین ممالک میں سے ایک ہے جہاں پولیو عام ہے۔ پاکستان میں ابھی بھی شورشیوں کے تشدد اور پولیو ویکسین کے خدشات سے متعلق شورشیوں کے جعلی دعوں کو اپنانے والے ان کے ہمدردوں سے تحفظ فراہم کرنے کے لیے پولیس کو پولیو ویکسینیٹرز کے ساتھ جانا پڑتا ہے۔
ایک حالیہ واقعہ میں 29 جنوری کونامعلوم مسلح افراد نے ضلع صوابی میں دو خاتون پولیو ویکسینیٹرز کو گولیاں مار کر ہلاک کر دیا، جس سے کے پی اور پاکستان کے دیگر علاقوں میں محظ عوامی صحت کو تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کرنے والے طبی عملہ کو درپیش مسلسل خوف واضح ہو گیا۔
شدّت پسندی کی قیمت سے واقف ایک اور کمیونیٹیافغان پناہ گزینوں کا ایک بڑا مہاجر طبقہہے۔ پاکستان بھر میں ان کی تعداد تقریباً 2.7 ملین ہے، جن میں سے متعدد کے پی میں ہیں۔
اس زد پذیر آبادی کے لیے بھی یہ نیا نظام سودمند ہے۔
پشاور سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی قیصر خان نے مزید کہا کہ یہ سوشل میڈیا اور دیگر فورمز پر عوام کی ستائش حاصل کر رہا ہے کیوں کہ اس سے افغان پناہ گزینوں کے لیے چیزیں آسان ہو گئی ہیں۔
عوام تک رسائی
حکام نے کہا کہ کے پی کے چند علاقوں میں ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر (DPOs) کھلی کچہریاں منعقد کر رہے ہیں، اور شہریوں کی ایک بڑی تعداد نے کالیں کیں یا میسیجز کے ذریعے اپنے مسائل بتائے۔
ڈی پی او ایبٹ آباد جاوید اقبال نے کہا، "ہم ہر ہفتے عوام کے مسائل کے حل اور فوری طور پر ضروری احکامات جاری کرنے کے لیے سوشل میڈیا کے ذریعے آن لائن کھلی کچہریاں منعقد کر رہے ہیں۔" 11 فروری کو شام 2 بجے تا 4 بجے کی پہلی کچری میں تقریباً 40,000 صارفین موجود تھے۔
اقبال نے کہا کہ 62 رہائشیوں نے شکایت درج کرنے، معلومات فراہم کرنے یاامنِ عامہ کو برقرار رکھنے جیسا کچھ اچھا کرنےپر مقامی پولیس کی پذیرائی کرنے کے لیے کال کی۔
انہوں نے کہا کہ براہِ راست کچہری کے دوران کالز کرنے والوں میں خواتین، بزرگان اور بیرنِ ملک مقیم پاکستانیوں سمیت تمام شعبہ ہائے زندگی سے لوگ شامل ہیں۔
پولیس شہریوں کے مسائل کے بارے میں جاننے اور ان کے بروقت حل سے متعلق زیادہ آگاہ ہونے کے لیے ہفتہ وار بنیادوں پر سوشل میڈیا کورٹ منعقد کر رہی ہے۔
اقبال نے کہا، "اس سے نہ صرف اہلکاروں بلکہ عوام کے بھی وقت کی بچت ہوتی ہے، جو اپنے گھروں، دفاتر، دکانوں یا کہیں سے بھی کال یا میسیج کر سکتے ہیں۔"
’عوام کی جانب سے پرجوش خیرمقدم‘
اعلیٰ پولیس عہدیداران نے امنِ عامہ کے اہم اجلاس ویڈیو لنک کے ذریعے منعقد کرنا شروع کیے ہیں تاکہ دور افتادہ علاقوں میں رہنے والے دیگر عہدیداران کو ہر نشست کے لیے پشاور نہ آنا پڑے۔
IGP عبّاسی نے کہا کہ انہوں نے مالاکنڈ، ہزارہ، بنّوں، ڈیرہ اسماعیل خان اور کوہاٹ کی پٹی میں دورافتادہ اضلاع کے افسران کے ساتھ ویڈیو لنک پر متعدد اجلاس منعقد کیے ہیں۔
مالاکنڈ کے DPO سجّاد خان نے کہا، "متعلقہ DPOs کی جانب سے سوشل میڈیا کے ذریعے کھلی کچہریوں کا عوام کی جانب سے پرجوش خیرمقدم کیا گیا ہے۔" انہوں نے زور دیا کہ آن لائن کھلی کچہریاں ان لوگوں کے لیے وقت بچاتی ہیں جو کسی اعلیٰ عہدیدار کے دفتر نہیں جا سکتے۔
انہوں نے کہا، "شہریوں کے لیے اپنے دفتروں سے چھٹی لینا یا اپنی دکانیں یا دیگر کاروبار بند کرنا آسان نہیں۔ اب وہ ہر ہفتے آن لائن عدالت کے ذریعے کسی بھی اعلیٰ پولیس عہدیدار سے رابطہ کرتے ہیں۔"
مختلف اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز نے پہلے ہی کے پی کے مختلف حصّوں میں آن لائن عدالتیں منعقد کرنا شروع کر دی تھیں۔ دیگر صوبوں نے شہریوں کے مسائل آن لائن موصول کرنے کا نظام متعارف کرا دیا ہے اور عہدیداران ان سے موقع پر نمٹنتے ہیں۔
صحافی قیصر خان نے کہا، "جیسا کہ ہر چیز ڈیجیٹل ہو گئی ہے، شکایات کے اندراج، معلومات فراہم کرنے یا دیگر مقاصد کے لیے کہیں سے بھی افسران سے آن لائن رابطہ کرنے کے لیے ایک آن لائن پلیٹ فارم فراہم کرنا ضرورتِ وقت تھی۔"
خان نے کہا، "جیسا کہ اب ہر شعبہ میں جدید ٹیکنالوجی استعمال ہو رہی ہے، شہری خوش ہیں کہ اب وہ خود کو یا اپنے علاقوں میں درپیش مسائل کو سامنے لانے کے لیے کہیں سے بھی پولیس اور انتظامیہ کے اعلیٰ حکام تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔"