پشاور – پاکستان بھر میں سیاسی جماعتوں نے امریکہ اور طالبان کی جانب سے گزشتہ جعمہ کو اعلان کیے گئے ممکنہ امن معاہدے اور ہفتہ (22 فروری) کو افغانستان بھر میں شروع ہونے والی ایک ہفتہ طویل جزوی جنگ بندی کا خیرمقدم کیا۔
طالبان، امریکہ اور افغان فورسز نے "تشدد میں کمی" پر اتفاق کرتے ہوئے 2001 کے بعد لڑائی میں صرف دوسری مرتبہ کمی کو رقم کیا۔
امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو اور طالبان، ہر دو نے بیانات جاری کیے، جن میں کہا گیا کہ انہوں نے ایک ہفتہ کی جزوی جنگ بندی کے بعد 29 فروری کو دوحہ میں اس معاہدہ پر دستخط کرنے پر اتفاق کیا ہے۔
پومپیو نے جمعہ کو ایک بیان میں کہا کہ دوحہ میںامریکی خصوصی ایلچی برائے افغانستان زلمے خلیلزاد اور طالبان کے نمائندگانکے مابین دستخط ہونے والا یہ امن معاہدہ بالآخر مکمل جنگ بندی کا باعث بنے گا۔
انہوں نے کہا، "افغانستان میں جنگ کے خاتمہ کے لیے ایک سیاسی انتظام کی تسہیل، امریکہ اور اتحادی افواج کی موجودگی میں کمی لانے، اور اس امر کو یقینی بنانے کے لیے کہ امریکہ یا ہمارے اتحادیوں کو دھمکانے کے لیے کوئی دہشتگرد گروہ کبھی افغان سرزمین استعمال نہ کرے، امریکہ اور طالبان طویل مزاکرات کرتے رہے ہیں۔"
پومپیو نے کہا، "اس اتفاقِ رائے کا کامیاب نفاذ ہونے پر توقع ہے کہ امریکہ طالبان معاہدہ میں پیش رفت ہو گی۔"
انہوں نے کہا، "اس کے بعد جلد ہی بین الافغان مزاکرات کا آغاز ہو گا، اور ایک جامع اور مستقل جنگ بندی اور افغانستان کے لیے مستقبل کا سیاسی نقشہ مہیا کرنے کے لیے اس بنیادی اقدام پر تعمیر ہو گی۔"
اے ایف پی نے خبر دی کہ ابتدائی ایّام میں جنگ بندی چبھنے والی محسوس ہوئی، جس میں عمل کو خراب کرنے کی غرض سے صرف تنہا حملے کیے گئے۔
ایک مقامی اہلکار نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ طالبان جنگجوؤں نے مزارِ شریف کے صوبائی صدرمقام بلخ کے قریب ایک ضلعی صدردفتر پر حملہ کیا، جس سے دو افغان فوجی مارے گئے۔ صوبہ ارزگان میں بھی ایک جداگانہ سانحہ کی خبریں ہیں۔
جنگ بندی کی جزوی ساخت کو نمایاں کرتے ہوئے طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ "جنگ بندی نہیں۔"
انہوں نے ٹویٹر پر کہا، "تشدد میں کمی صوبائی صدرہائے مقام، عسکری ہیڈکوارٹرز، ڈویژنز، بٹالین مراکز اور غیر ملکی افواج کے احاطوں کو کور کرتی ہے۔"
خطے بھر کے لیے امن و ترقی
عوامی نیشنل پارٹی کے صدر اسفندیار ولی خان نے کہا کہ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ تینوں فریقین—امریکہ، طالبان اور افغان حکومت – نے ممکنہ امن معاہدے کے شرائط پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔
انہوں نے کہا، "[اس امن معاہدے کا] پاکستان پر دیرپا اثر ہو گا، جو دہشتگردی سے شدید متاثر ہوا ہے۔ مجھے امّید ہے کہ جلد ہی یہ عارضی وقفہ ایک مستقل جنگ بندی بن جائے گا۔"
انہوں نے کہا، "ہماری جماعت اس اعلان کا خیر مقدم کرتی ہے اور افغانستان میں امن کے عمل کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اپنی کاوشیں جاری رکھے گی کیوں کہ ہمسایہ افغانستان میں امن پاکستان کے مفاد میں ہے۔" انہوں نے مزید کہا کہ انہیں امّید ہے کہ یہ معاہدہ تمام تر خطے کے لیے امن و ترقی کا رہبر ہو گا۔
خان نے کہا، "خطے میں نہ ختم ہونے والی دہشتگردی کی وجہ سے ہزاروں افراد مارے جا چکے ہیں؛ دسیوں لاکھوں ہجرت کر کے بے گھر ہو چکے ہیں۔ لیکن اب بالآخراحساس کامیاب ہو گیا اور ہم اس معاہدے کے نتیجہ میں ایک مکمل امن کے لیے پرامّید ہیں۔"
سابقہ وزیرِ داخلہ اور قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب احمد خان شیرپاؤ نے کہا، "ہم خطے میں امن مزاکرات کی مستحکم حمایت کرتے ہیں اور شہریوں کے پرامن طور پر زندگی گزارنے اور ہر قسم کی دہشتگردی کے خاتمہ کے لیے امریکہ، طالبان اور افغان حکومت کو اپنے تعاون کا یقین دلاتے ہیں۔"
انہوں نے کہا، "شدید دہشتگردی نے پاکستان اور افغانستان کو معاشی مایوسی میں دھکیل دیا ہے اور دونوں ملکوں کے باشندوں نے اپنی املاک اور کاروبار کھوئے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہم سب لاقانونیت کا خاتمہ چاہتے ہیں۔"
شیرپاؤ نے کہا، "یہ امن معاہدہ نہ صرف افغانستان، بلکہ ان ہمسایہ ممالک کے لیے بھی سودمند ہو گا جو دہشتگردی کے ہاتھوں یرغمال بن چکے ہیں۔"
خیبر پختونخوا (کے پی) کے وزیرِ اعلیٰ کے مشیر برائے قبائلی اضلاع اور پاکستان تحریکِ انصاف کے ایک رہنما اجمل خان وزیر نے کہا کہ افغانستان میں امن کا مطلب پورے خطے میں آسودہ حالی ہے۔
انہوں نے کہا، "ہمارے قبائلی اضلاع افغانستان میں جنگ کی وجہ سے بدترین طور پر متاثر ہوئے۔ اس لیے ہم ایک امن معاہدے کے اعلان پر نہایت خوش ہیں۔ ہم تمام گروہوں سے اپیل کرتے ہیں کہ اس امن معاہدے پر دستخط کریں اور عوام کو ایک دہشتگردی سے پاک ماحول میں رہنے دیں۔"
افغان پناہ گزینوں میں خوشی
2010 تک کابل یونیورسٹی میں پڑھانے والے پروفیسر عبدالجبار، جو اب پشاور میں رہتے ہیں، نے کہا، "جنگ کے برسوں کے بعد، ممکنہ امن معاہدہ افغانستان سے غیر ملکی فوجیوں کو باہر نکالنے کا رستہ ہموار کر سکتی ہے، جو کہ افغان طالبان کا طویل عرصہ سے مطالبہ ہے۔
2010 تک کابل یونیورسٹی میں پڑھانے والے پروفیسر عبدالجبار، جو اب پشاور میں رہتے ہیں، نے کہا، "ہم اس امر پر تمام فریقین کی پذیرائی کرتے ہیں کہ انہوں نے اس شائستگی کا مظاہرہ کیا جو عوام کے لیے فائدہ مند ہو گی۔"
انہوں نے کہا، "طالبان کو یہ امر ذہن نشین رکھنا چاہیئے کہ عوام جنگ کا خاتمہ چاہتی ہے۔" انہوں نے مزید کہا کہ یہ معاہدہ کرانے میں امریکی مصالحت کاروں کا کردار قابلِ ستائش ہے۔
جبار، جو پشاور میں افغان طلبہ کے لیے ایک ٹویشن سنٹر چلاتے ہیں، نے کہا کہ امن معاہدے کی خبر سے افغان پناہ گزینوں میں خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی۔
انہوں نے 1979 میں سوویت حملے سے 40 برس سے زائد کی جنگ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، "افغان جنگ کے آغاز سے اب تک یہ پہلی مرتبہ ہے کہ ہمارے عوام اپنے جنگ سے خستہ حال ملک میں امن سے متعلق پر اعتماد ہیں۔ افغان اس اعلان پر جشن منا رہے ہیں کیوں کہ اس سے ان کی زندگیوں میں نمایاں بہتری آئے گی۔"
جبّار نے کہا، "گزشتہ چند نسلیں دہشتگردی میں پلی بڑھی ہیں، اپنی زندگی از سرِ نو شروع کرنے کے لیے ہر کسی کی نظریں 29 فروری پر ہیں۔"