انتخابات

امّیدواران پر پابندی کے بعد ایران کے صدر کی ملک کے دقیانوسی حاکموں پر تنقید

پاکستان فارورڈ اور اے ایف پی

ایران کے صدر حسن روحانی 27 جنوری کو ملک کے انتخابات کا انتظام کرنے والے شدید قدامت پسندوں کے ایک ادارے پر پرجوش تنقید کر رہے ہیں۔ [دفتر صدرِ ایران]

ایران کے صدر حسن روحانی 27 جنوری کو ملک کے انتخابات کا انتظام کرنے والے شدید قدامت پسندوں کے ایک ادارے پر پرجوش تنقید کر رہے ہیں۔ [دفتر صدرِ ایران]

تہران – انتخابات سے چند ہفتے قبل، اپنے شدید قدامت پسند مخالفین کی اکثریت پر مشتمل ایک ادارے کی جانب سے ہزاروں امّیدواران کے نااہل کیے جانے کے بعد، ایران کے صدر نے پیر (27 جنوری) کو اسلامی جمہوریہ کی "جمہوریت اور قومی خودمختاری" کو درپیش خطرات کی تنبیہ کی۔

92 منتخب ارکانِ پارلیمان سمیت – ہزاروں امّیدواران کی نااہلی پر صدر حسن روحانی کے میانہ قدامت پسند اور ان کے اصلاح پسند اتحادی شوریٰٴ نگہبان کے ساتھ عوامی قضیہ میں مبتلا ہیں۔

ایران کے انتخابات کی نگرانی کرنے والی اس کاؤنسل نے کہا کہ اس نے 14,500 امّیدواران کے تقریباً دوتہائی، تقریباً 9,500 ممکنہ امّیدواران کو انتخاب لڑنے سے روک دیا ہے۔

روحانی نے کہا کہ ان نااہلیوں سے بیلٹ باکس کے علاوہ "کہیں اور سے" تقرریاں ہونے کا خدشہ ہے۔

صدر کی ویب سائٹ نے صوبائی گورنروں کے ساتھ ایک اجلاس میں روحانی کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے رقم کیا، "جمہوریت اور قوم کی خودمختاری کے لیے سب سے بڑا خطرہ وہ دن ہے جب انتخابات ایک رسم رہ جائیں گے۔"

انہوں نے مزید کہا، "خدا وہ دن کبھی نہ لائے،"۔

"آئیں عوام کو ایک مرتبہ پھر یقین دہانی کرائیں اور انہیں بتائیں کہ ہمارا نظام یک جماعتی نظام نہیں۔"

شدید قدامت پسندوں کا ایک حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا، "انہیں کم از کم مقابلہ اور شرکت ہونے دینی چاہیئے۔"

انہوں نے تمام حلقوں کے ایرانیوں سے ووٹ ڈالنے کا کہا، "خواہ۔۔۔ انتخابات میں خامیاں ہی کیوں نہ ہوں۔"

انہوں نے کہا، "بعض اوقات میں کسی وجہ سے ووٹ ڈالنا نہیں چاہتا، لیکن بعض دیگر اوقات مجھے اتنا اعتبار نہیں ہوتا کہ میں بیلٹ باکس تک جاؤں؛ یہ نہایت خطرناک ہے۔"

بڑھتی ہوئی بدامنی

یہ انتخابات ایران کے لیے اس تکلیف دہ مہینے کے بعد آ رہے ہیں جس میںملک کے سپاہِ پاسدارانِ انقلابِ اسلامی (آئی آر جی سی) کی جانب سے ایک یوکرائنی مسافر بردار طیارے کو مارے گرانے کے اعتراف کے بعد حکومت مخالف احتجاج پھیل گئے۔

اس اعتراف اورپردہ ڈالنے کی کوشش میں اس سانحہ سے متعلق آئی آر جی سی اور اعلیٰ ایرانی عہدیدارن کے جھوٹ کے علم نے ملک بھر میں ایک نئے عوامی غم و غصہ اور بے مثال احتجاج کو بھڑکا دیا۔

بڑھتی ہوئی مخالف آبادی اور ایک تیزی سے گرتی ہوئی معیشت کا سامنا کرتے ایرانی رہنما حالات کو قابو میں رکھنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ مغرب کے خلاف سختی دکھا رہے ہیں۔

اگرچہ حالیہ مظاہرے ایران کی جانب سے طیارہ مار گرائے جانے اور اس سانحہ سے نمٹنے میں ایرانی رہنما کی مبینہ نااہلیت کی وجہ سے بھڑکے، تاہمایران کے مستقل معاشی المیوں کی وجہ سے غم و غصہ کی ایک گہری لہر موجود ہے۔

ان معاشی مشکلات اور ان کی وجہ سے داخلی بدامنی نے پچھلی مرتبہ مغرب کے خلاف سختی دکھاتے ہوئےایرانی حکومت کی مغرب کے مدِ مقابل ہونے کی خواہش کو نقصان پہنچایا ہو گا۔

اس بدامنی کے حالیہ مظاہرے میں، صوبہ خوزیستان میں– آئی آر جی سی کے ساتھ قریبی طور پر منسلک ایک گروہ -- باسِج ملشیا کے ایک کمانڈر کو 22 جنوری کو نامعلوم حملہ آوروں نے قتل کر دیا۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500