سفارتکاری

پاکستان اور ترکمانستان نے تجارت پر باہمی تعاون بڑھا دیا

ضیاء الرحمان

پاکستان سینٹ کے چیرمین صدیق سنجرانی، دائیں، 9 جنوری کو ترکمانستان کے سفیر عطاجان مولاموف سے ملے۔ انہوں نے علاقائی ترقی اور خوشحالی کی خاطر پاکستان اور وسطی ایشیاء کے درمیان تجارت اور ہمہ جہتی تعاون کے لیے علاقائی رابطوں کو بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا۔ [پاکستانی سینٹ]

پاکستان سینٹ کے چیرمین صدیق سنجرانی، دائیں، 9 جنوری کو ترکمانستان کے سفیر عطاجان مولاموف سے ملے۔ انہوں نے علاقائی ترقی اور خوشحالی کی خاطر پاکستان اور وسطی ایشیاء کے درمیان تجارت اور ہمہ جہتی تعاون کے لیے علاقائی رابطوں کو بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا۔ [پاکستانی سینٹ]

اسلام آباد -- پاکستان اور ترکمانستان نے تجارت اور سیاحت میں تعاون کو بڑھانے کے لیے حال ہی میں کئی قدم اٹھائے ہیں کیونکہ دونوں ملک تعلقات کو گہرا کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔

مثال کے طور پر، پاکستان کے سینٹ کے چیرمین صدیق سنجرانی نے 9 جنوری کو، پاکستان میں ترکمانستان کے سفیر عطاجان مولاموف سے اسلام آباد میں ملاقات کی تاکہ پاکستان اور وسطی ایشیاء کے درمیان علاقائی تجارت اور ہمہ جہتی تعاون کو بڑھانے کے لیے بات چیت کی جا سکے۔

سنجرانی نے کہا کہ زمینی طور پر محصور وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ رابطوں کو بہتر بنانے کے لیے دونوں ملکوں کو براہِ راست فضائی رابطوں کی ضرورت ہے۔

دونوں راہنماؤں نے پاکستان-ترکمانستان مشترکہ حکومتی کمیشن جو کہ اگست 2009 میں قائم کی جانے والا مشترکہ ادارہ ہے جسے دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ ایجنڈا کے پورے سلسلے کا جائزہ لینے کے لیے قائم کیا گیا تھا، کی اہمیت کے بارے میں بات چیت کی اور اس بات پر اتفاق کیا کہ کمیشن کی میٹنگ جلد منعقد کی جانی چاہیے۔

مارچ 2019 میں، ترکمانستان کے نائب وزیراعظم اور وزیرِ خارجہ راشد میردوف نے پاکستان کا دورہ کیا اور پاکستان صدر عارف علوی، وزیراعظم عمران خان اور پاکستان کے وزراء برائے مالیات، تیل، گیس، بجلی اور پانی سے الگ الگ ملاقاتیں کیں۔

پاکستان کے دفترِ خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ میٹنگ میں، دونوں ممالک سے تعلق رکھنے والے راہنماؤں نے زور دیا کہ "مشترکہ طور پر شناخت کردہ میدانوں خصوصی طور پر زراعت، ٹیکسٹائل، لائیو سٹاک اور آئی ٹی کے شعبوں میں مشترکہ مہمات کے ذریعے دو طرفہ اقتصادی تعلقات کو بہتر بنایا جائے"۔

تعلقات کو گہرا بنانا

کراچی یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کے شعبہ کے چیرمین ڈاکٹر نعیم احمد نے کہا کہ پاکستان اور ترکمانستان کے درمیان 1991 تک دوستانہ تعلقات تھے جب مؤخر الذکر سوویت یونین کے بکھر جانے کے بعد ایک آزاد اور خودمختار ملک کے طور پر ابھرا تھا۔

دونوں ممالک کے درمیان میٹنگز میں ایک غالب موضوع، ترکمانستان-افغانستان -افغانستان-انڈیا (ٹاپی) پائپ لائن تھا جو کہ اس وقت زیرِ تعمیر ہے۔

ایران جو کہ اس منصوبے کا مخالف ہے، نےگزشتہ سالوں کے دوران تعمیر کو روکنے کے لیے کئی سیاسی اور اس کے ساتھ ہی متشدد قدم اٹھائے ہیں۔

اس منصوبے کے تحت، ترکمانستان کی گالکینیش کی گیس فیلڈ سے قدرتی گیس 2022 تک ترکمانستان اور پاکستان کو پمپ کیا جائے گا۔

احمد نے اس بات کا اضافہ کرتے ہوئے کہ ترکمانستان ان چار ممالک سے منافع کمائے گا جہاں سے یہ پائپ لائن گزرے گی کہا کہ یہ منصوبہ نہ صرف توانائی کی کمی کے شکار ملک کے لیے ایک رحمت ہو گا بلکہ ملازمت کے مواقع بھی پیدا کرے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ سیاسی طور پر، یہ منصوبہ پاکستان اور انڈیا کو ایک دوسرے کے قریب آنے اور جنوبی ایشیاء میں امن کے امکانات کو بہتر بنانے میں مدد کرے گا۔

دریں اثناء دونوں ممالک سے تعلق رکھنے والے کاروباری ادارے، پاکستان-ترکمانستان مشترکہ کاروباری کونسل (پی ٹی جے بی سی) کے بنائے جانے کے بعد سے سازوسامان کی بڑے پیمانے پر خریداری کر رہے ہیں۔

مارچ میں، پاکستان کے ایوانِ صنعت و تجارت اور ترکمانستان کے ایوانِ صنعت و تجارت نے پی ٹی جے بی سی قائم کرنے کے لیے ایک یادداشت پر دستخط کیے۔

پاکستان سے تعلق رکھنے والے ایک انجنیر اور پی ٹی جے بی سی کے راہنما دارو خان اچکزائی نے کہا کہ کونسل دونوں ممالک میں کاروباروں کی مدد کرنے کے لیے حکمتِ عملیاں تیار کرنے کے لیے کام کر رہی ہے۔

اچکزئی نے کہا کہ "اس سے دونوں ملکوں کے دو طرفہ اقتصادی تعلقات میں اضافہ ہو گا اور ان میں مضبوطی آئے گی جس سے دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ تجارت اور سرمایہ کاری کا بہاؤ، دونوں ممالک کے متعلقہ حکام کی طرف سے جاری کیے جانے والے فریم ورک اور قوانین و قوائد کے تحت بڑھے گا"۔

دہشت گردی کے خلاف مشترکہ کوششیں

اشک آباد کئی سالوں سے دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے اسلام آباد کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔

ایکسپریس ٹریبیون نے مارچ 2016 میں خبر دی تھی کہ 2016 میں ترکمانستان کے صدر گربنگولی بردیمحمدوف اور اس وقت کے پاکستانی وزیراعظم نواز شریف نے اسلام آباد میں ایک میٹنگ کے دوران اتفاق کیا کہ دونوں ملک مل کر انتہاپسندی اور دہشت گردی کے خطرے کا مقابلہ کریں گے تاکہ علاقے میں استحکام اور امن کو یقینی بنایا جا سکے اور مشترکہ منصوبے شروع کیے جا سکیں۔

افغانستان کے ساتھ 744 کلومیٹر طویل سرحد سانجھی ہونے کے باوجود، ترکمانستان زیادہ تر دہشت گردی سے غیر متاثر رہا ہے تاہم تشویش ابھی بھی موجود ہے۔

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے سیکورٹی کے محقق، بختاور خان جو وسطی ایشیاء میں سیکورٹی کے مسائل کی نگرانی کرتے ہیں، نے کہا کہ "طالبان، دولتِ اسلامیہ کی خراسان شاخ (داعش-کے) اور افغانستان اور پاکستان میں القاعدہ اور اس سے تعلق رکھنے والے وسطی ایشیاء کے دوسرے دہشت گرد گروہ جن میں اسلامک موومنٹ آف ازبکستان، ترکمانستان کے لیے ایک خطرہ ہیں"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500