پشاور – اہلکاروں کا کہنا ہے کہ قبائلی اضلاع میں ریسکیو 1122 کے مزید اسٹیشنز قائم کرنے کے لیے خیبر پختونخواہ (کے پی) میں کام جاری ہے۔
گزشتہ 15 برسوں میں قبائلی اضلاع کے ہزاروں باسی خودکش حملوں، بم دھماکوں، عمداً قتل اور دیگر حملوں میں ہلاک یا زخمی ہوئے۔ اب تک، قبائلی پٹی میں زخمیوں کو اسپتال پہنچانے کے لیے نقل و حمل کی کوئی خصوصی خدمات موجود نہیں تھیں۔
کے پی کے شعبۂ اعانت اور بحالی کے سیکریٹری، جناب عبدالمجید نے کہا ‘‘حال ہی میں ضم ہونے والے نئے اضلاع میں بیس اسٹیشنز قائم کیے جائیں گے تاکہ کسی بھی دہشت گرد حملے، بمباری، آتشزدگی یا کسی بھی فوری طبی ضرورت کی صورت میں سابقہ فاٹا (وفاق کے زیرِانتظام قبائلی علاقے) کے رہائشیوں کو فوری ریسکیو خدمات فراہم کی جاسکیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘‘اس سال جون کے اختتام تک ان میں سے کم از کم 10 اسٹیشنز کام شروع کردیں گے۔’’
مجید صاحب کے مطابق، سات سابقہ قبائلی ایجنسیوں میں سے ہر ایک کو دو ریسکیو 1122 اسٹیشنز، جبکہ چھ سابقہ سرحدی علاقوں میں سے ہر ایک کو ایک ایک ریسکیو 1122 اسٹیشن دیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا ‘‘نئے انضمامی اضلاع کے لیے دفاتر کے قیام، مشینری اور گاڑیوں کی خریداری اور عملے کی بھرتی کے لیے 3.69 بلین روپے (24 ملین امریکی ڈالرز) مختص کیے گئے ہیں۔’’
2 اسٹیشنز پہلے ہی کام انجام دے رہے ہیں
مجید صاحب کے مطابق، ایک اسٹیشن کھر، باجوڑ کے ضلع میں، اور دوسراجمرود، ضلع خیبر میںپہلے ہی کام شروع کرچکا ہے۔
کے پی کے وزیرِاعلیٰ جناب محمود خان نے 9 جنوری کو ضلع خیبر کے باڑہ ذیلی ڈویژن میں ریسکیو 1122 کی عمارت پر تعمیراتی کام کا افتتاح کیا۔
اہلکاروں کے مطابق، اس منصوبے کی لاگت کا تخمینہ 45 ملین روپے (290,000 امریکی ڈالرز) ہے، اور عمارت 18 ماہ میں مکمل طور پر تیار ہوکر کام شروع کردے گی۔
ریسکیو 1122 کے ایک ترجمان، بلال احمد فیضی نے کہا ‘‘ریسکیو کی خدمات پہلے ہی جمرود، خیبر میں ماہِ اگست میں شروع ہوچکی تھیں، جبکہ دسمبر میں ان خدمات کی باجوڑ کے قبائلی ضلع تک توسیع کی گئی۔’’
فیضی صاحب کا کہنا تھا ‘‘ہم نے پشاور، کوہاٹ کے اُس سابقہ علاقے اور دیگر سرحدی علاقوں میں خدمات کا آغاز کردیا ہے جو اب ملحقہ اضلاع کا حصہ ہیں۔’’
مزید برآں، صوبے میں چند مقررہ اضلاع بشمول سوابی، ہنگو، کرک اور مالاکنڈ کے اضلاع میں گزشتہ دو ماہ سے ریسکیو 1122 کے نئے اسٹیشنز دیکھے جا چکے ہیں۔
فراہمی کے لیے طے شدہ ایکوئپمنٹ
فیضی صاحب کے مطابق ‘‘قبائلی ضلع کے ہر اسٹیشن میں دو ایمبولینسیں، دو آگ بجھانے والی گاڑیاں، قدرتی آفت سے نمٹنے کے لیے ایک گاڑی اور دیگر ضروری سازوسامان ہوگا، ان کا مزید کہنا تھا کہ آنے والے دنوں میں اتھارٹیز قبائلی اضلاع کے لیے 1,750 اہلکار اور ماہرین بھرتی کرے گی۔
کے پی میں ریسکیو 1122 کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر خاطر احمد نے کہا ‘‘نئے انضمامی اضلاع میں ریسکیو اسٹیشنز کا قیام مقامی انتظامیہ کی مدد سے عمل میں لایا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ دفاتر اور اسٹیشنز پر تعمیراتی کام کا آغاز ہوچکا ہے، جبکہ اتھارٹیز اہلیت کو یقینی بناتے ہوئے خصوصی تجزیاتی خدمت کے ذریعے ان تمام اضلاع میں عملہ بھرتی کر رہی ہیں۔
جمرود، جہاں نئے اسٹیشنز نے کام شروع کردیا ہے، وہاں کے ایک رہائشی عبدالقدیر آفریدی نے کہا ‘‘12 جنوری کو ایک سڑک حادثے میں زخمی ہونے والے پانچ افراد کو ریسکیو 1122 کی ایمبولینسوں نے بلا تاخیر فوری طور پر پشاور کے اسپتالوں میں منتقل کر دیا تھا۔’’
ان کا کہنا تھا کہ علاقے کے رہائشیوں نے ریسکیو 1122 کا خیرمقدم کیا ہے، کیونکہ ان علاقوں، اور خصوصاً اسپتالوں اور شہروں سے دور دراز علاقوں میں اس کی بہت زیادہ ضرورت تھی۔
آفریدی کا کہنا تھا ‘‘جب دہشت گردی اپنے عروج پر تھی اور لوگ ہلاک اور زخمی ہو رہے تھے، تو شہری [اور اہلکار] زخمیوں کو پشاور کے اسپتالوں میں منتقل کرنے کے لیے پک اَپ وینز، اپنی ذاتی کاریں یا سیکیورٹی فورسز اور ضلعی انتظامیہ کی گاڑیاں استعمال کرتے تھے۔’’
انہوں نے کہا کہ قبائلی علاقوں میں کچھ نجی ایمبولینسیں تھیں لیکن ہنگامی ریسکیو خدمات کا کوئی منظم نظام موجود نہیں تھا۔
آفریدی کا کہنا تھا ‘‘حکومت کو بلاتاخیر تمام نئے ضم شدہ اضلاع میں ریسکیو 1122 کی بھرپور اور جامع خدمات کے آغاز کے لیے عملے کی بھرتی اور مشینری اور گاڑیوں کی خریداری کا عمل بلا تاخیر مکمل کرنا چاہیے۔