جرم و انصاف

مصالحتی کونسلیں قبائلی اضلاع میں ثالثی کا نظام لے آئی ہیں

از جاوید خان

پشاور میں ایک مصالحتی کونسل 7 جنوری کو فریقین کی جانب سے دلائل سنتے ہوئے۔ مصالحتی کونسلیں اب سابقہ فاٹا میں ظاہر ہو رہی ہیں۔ [جاوید خان]

پشاور میں ایک مصالحتی کونسل 7 جنوری کو فریقین کی جانب سے دلائل سنتے ہوئے۔ مصالحتی کونسلیں اب سابقہ فاٹا میں ظاہر ہو رہی ہیں۔ [جاوید خان]

پشاور -- خیبرپختونخوا (کے پی) نئے ضم شدہ قبائلی اضلاع میں مصالحتی کونسلیں (ڈی آر سیز) قائم کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے.

کیپیٹل سٹی پولیس آفیسر (سی سی پی او) پشاور محمد علی گنڈاپور نے 5 جنوری کو کہا، "قبائلی خیبر اضلاع میں مصالحتی کونسلیں قائم کرنے کے علاوہ، ہم پشاور میں دو مزید مصالحتی کونسلیں قائم کر رہے ہیں"۔

مصالحتی کونسلوں،جو کے پی بھر میں خاندانی دشمنیوں اور جھگڑوں کو ختم کرنے کے لیے قائم کی گئی تھیں، نے سنہ 2019 میں کُل 7،089 مقدمات وصول کیے تھے۔ کونسلوں نے 5،273 مقدمات حل کیے اور 1،266 مقدمات دیگر متعلقہ فورموں کو بھیجے، اور باقی ماندہ ابھی تک زیرِ سماعت ہیں۔

گنڈاپور نے کہا کہ مصالحتی کونسلیں دیہاتی علاقوں میں خاندانی دشمنیوں کو ختم کرنے اور قتلوں کو روکنے میں مددگار ہوں گی، ان کا مزید کہنا تھا "[مصالحتی کونسلیں] اپنے قیام کے بعد سے کے پی کے تمام اضلاع میں بہترین کام انجام دیتی رہی ہیں۔"

کے پی کے سبکدوش ہو رہے انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی پی) محمد نعیم خان نے کہا، "مصالحتی کونسلوں کی کامیابی کے بعد، ہم انہیں سابقہ فاٹا [وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقہ جات] تک وسیع کر رہے ہیں"۔

ان کا کہنا تھا کہ نئے ضم شدہ تمام اضلاع میں مصالحتی کونسلوں کے قیام کا عمل بہت جلدی مکمل کر لیا جائے گا۔ شروع میں، کے پی حکومت تنازعات کے متبادل حل (اے ڈی آر)، مثلاً، ایک عدالت سے باہر جھگڑوں کو نمٹانے کے ایک ذریعے کے طور پر، ایک فورم مہیا کرنے کے لیے ہر قبائلی ضلع میں ایک مصالحتی کونسل قائم کرے گی۔

ان کا کہنا تھا چونکہ زیادہ سے زیادہ فریقین اپنے تنازعات کو سلجھانے کے لیے مصالحتی کونسلوں کے پاس آ رہے ہیں یہ اس اعتماد کا اظہار ہے جو مقامی باشندے ان پر کرتے ہیں۔

پہلی مصالحتی کونسل جنوری 2014 میں پشاور کے گلبہار پولیس تھانے میں قائم کی گئی تھی جس کے بعد مزید مصالحتی کونسلوں نے دیگر اضلاع میں کام کرنا شروع کر دیا۔

پشاور کے نواحی علاقے کے ایک مکین، بہادر خان نے کہا، "میں گلبہار پشاور میں مصالحتی کونسل میں اس وقت گیا تھا جب کچھ مقامی جرائم پیشہ عناصر ہماری زمین پر قبضہ کرنا چاہتے تھے"۔

مصالحتی کونسل نے سات ماہ تک مقدمے کی سماعت جاری رکھی، ٹیموں کو مذکورہ مقام پر بھیجا اور ریکارڈز کی پڑتال کی۔

خان کا کہنا تھا، "سماعت کرنے اور تمام ریکارڈز کی پڑتال کرنے کے بعد، اس نے ہمارے حق میں فیصلہ دیا۔۔۔ متعلقہ پولیس کو یہ ہدایات جاری کرتے ہوئے کہ اگر مخالفین کوئی بھی مجرمانہ کام کریں تو ان کے خلاف کارروائی کی جائے"۔

جرگہ کی طرز پر ایک نظام

کے پی پولیس کے ایک ترجمان، کوکب فاروق نے کہا، "صوابی، مردان، نوشہرہ اور سوات میں ایک ایک مصالحتی کونسل ہے، جبکہ پشاور، چارسدہ اور چترال میں سے ہر ایک میں تین تین مصالحتی کونسلیں ہیں،" ان کا مزید کہنا تھا کہ باقی ماندہ اضلاع میں سے ہر ایک ضلع میں ایک مصالحتی کونسل ہے۔

فاروق نے کہا، "مصالحتی کونسلیں جرگہ کے نظام کی ایک نقل ہیں، جس کی جڑیں پہلے ہی سے قبائلی اضلاع اور کے پی کے دیگر حصوں میں موجود ہیں"۔

ان کا کہنا تھا کہ ایسا وقت بھی تھا جب کالعدم تنظیمیں جیسے کہ منگل باغ کی قیادت میں، لشکرِ اسلام افراد یا گروہوں کے مابین تنازعات کا فیصلہ کرنے کے لیے استعمال ہوتی تھیں کیونکہ قبائلی علاقہ جات میں کوئی عدالتی نظام نہیں تھا۔

انہوں نے کہا کہ اب مصالحتی کونسلیں مقامی افراد کے لیے ان کے تنازعات قانونی کفالت کے حامل ایک فورم پر حل کرنے کے لیے ایک متبادل ذریعہ فراہم کریں گی۔

ضلع خیبر سے تعلق رکھنے والے یونیورسٹی کے فارغ التحصیل، اسلام آفریدی نے کہا، "کچھ لوگ تنازعات کے متبادل حل کے لیے کالعدم تنظیموں کے پاس جاتے تھے، جو کہ درست نہیں تھا"۔

ان کا کہنا تھا، "اب، ان کے پاس اپنے جھگڑوں کو تنازعات کے متبادل حل یا ایک باضابطہ جرگہ کے ذریعے نمٹانے کے لیے ادارے موجود ہوں گے"۔

انہوں نے مزید کہا کہ مصالحتی کونسلیں سابقہ فاٹا میں اور بھی کامیاب ہوں گی کیونکہ ان کی جڑیں شناسائی والے جرگہ کے نظام میں ہیں۔ "واحد کام جو کرنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ مصالحتی کونسلوں میں صاف ستھرے اور قابل افراد کو تعینات کیا جائے تاکہ وہ اپنے کام سے انصاف کر سکیں۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 2

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

خوب

جواب

Nowshra ma mashlte kumaite kedar ha our ous ka tareka e kar kya ha

جواب