معاشرہ

تصاویر میں: پشاور میں آلاتِ موسیقی کے کاریگر ڈٹے رہے ہیں

از عدیل سعید

ایک کاریگر، احمد علی، 20 دسمبر کو پشاور میں اپنی دکان میں ایک دف کی مرمت کرنے میں مصروف۔ [عدیل سعید]

ایک کاریگر، احمد علی، 20 دسمبر کو پشاور میں اپنی دکان میں ایک دف کی مرمت کرنے میں مصروف۔ [عدیل سعید]

پشاور میں ایک کاریگر 20 دسمبر کو ایک دف مرمت کرتے ہوئے۔ [عدیل سعید]

پشاور میں ایک کاریگر 20 دسمبر کو ایک دف مرمت کرتے ہوئے۔ [عدیل سعید]

ایک مہمان 20 دسمبر کو پشاور میں ایک دف کی مرمت ہوتے دیکھتے ہوئے۔ [عدیل سعید]

ایک مہمان 20 دسمبر کو پشاور میں ایک دف کی مرمت ہوتے دیکھتے ہوئے۔ [عدیل سعید]

پشاور میں ایک کاریگر 20 دسمبر کو ایک ڈھول پر جانور کی کھال ڈالتے ہوئے۔ [عدیل سعید]

پشاور میں ایک کاریگر 20 دسمبر کو ایک ڈھول پر جانور کی کھال ڈالتے ہوئے۔ [عدیل سعید]

پشاور میں ایک کاریگر 20 دسمبر کو ایک رباب بناتے ہوئے۔ [عدیل سعید]

پشاور میں ایک کاریگر 20 دسمبر کو ایک رباب بناتے ہوئے۔ [عدیل سعید]

پشاور میں ایک کاریگر 20 دسمبر کو ایک رباب مرمت کرتے ہوئے۔ [عدیل سعید]

پشاور میں ایک کاریگر 20 دسمبر کو ایک رباب مرمت کرتے ہوئے۔ [عدیل سعید]

پشاور میں ایک کاریگر 20 دسمبر کو آلاتِ موسیقی مرمت کرتے ہوئے۔ [عدیل سعید]

پشاور میں ایک کاریگر 20 دسمبر کو آلاتِ موسیقی مرمت کرتے ہوئے۔ [عدیل سعید]

پشاور میں ایک کاریگر 20 دسمبر کو آلاتِ موسیقی مرمت کرتے ہوئے۔ [عدیل سعید]

پشاور میں ایک کاریگر 20 دسمبر کو آلاتِ موسیقی مرمت کرتے ہوئے۔ [عدیل سعید]

پشاور میں آلاتِ موسیقی کی ایک دکان کا مالک 20 دسمبر کو ایک گاہک کو رباب دکھاتے ہوئے۔ [عدیل سعید]

پشاور میں آلاتِ موسیقی کی ایک دکان کا مالک 20 دسمبر کو ایک گاہک کو رباب دکھاتے ہوئے۔ [عدیل سعید]

پشاور میں آلاتِ موسیقی کی ایک دکان کا مالک 20 دسمبر کو ایک گاہک کو رباب دکھاتے ہوئے۔ [عدیل سعید]

پشاور میں آلاتِ موسیقی کی ایک دکان کا مالک 20 دسمبر کو ایک گاہک کو رباب دکھاتے ہوئے۔ [عدیل سعید]

پشاور میں 20 دسمبر کو ایک گاہک آلاتِ موسیقی کی دکان میں رباب بجاتے ہوئے۔ [عدیل سعید]

پشاور میں 20 دسمبر کو ایک گاہک آلاتِ موسیقی کی دکان میں رباب بجاتے ہوئے۔ [عدیل سعید]

پشاور -- اندرونِ پشاور شہر کی چھوٹی سی دکانوں میں بیٹھے، کاریگروں کو بھیڑ کی کھنچی ہوئی کھالوں کو دف بنانے کے لیے اپنی ہتھیلیوں سے تھپتھپانے اور ربابوں کی تاریں کسنے میں مصروف دیکھا جا سکتا ہے۔

راہگیر روایتی آلاتِ موسیقی کی دھنوں کو سن کر ایسی دکانوں کی موجودگی کا باآسانی پتہ لگا سکتے ہیں۔

ان دکانداروں نے عسکریت پسندی کے ایک دہائی طویل عرصےکو جھیلا ہے، جب عسکریت پسند سی ڈی کی دکانوں اور تھیٹر جیسے موسیقی کے مقامات کو نشانہ بنایا کرتے تھے۔

بالکل حال ہی میں، وہ ایک نئے خطرے -- بڑھتی ہوئی مقبولیت والے پاپ ڈی جے -- کے خلاف ڈٹ کر کھڑے رہنا جاری رکھے ہوئے ہیں۔

پشاور میں ایک کاریگر 20 دسمبر کو آلاتِ موسیقی بناتے ہوئے۔ [عدیل سعید]

پشاور میں ایک کاریگر 20 دسمبر کو آلاتِ موسیقی بناتے ہوئے۔ [عدیل سعید]

ایک کاریگر، احمد علی، کا کہنا تھا، "ہمارا خاندان گزشتہ ایک صدی سے دف اور رباب بناتا رہا ہے کیونکہ ہمیں یہ فن اپنے آباء و اجداد سے ورثے میں ملا ہے۔"

انہوں نے کہا کہ ان کے والد کو یہ ہنر ان کے دادا سے ورثے میں ملا تھا، جس سے اس خاندان کے دف بنانے کے 100 سال پورے ہو جاتے ہیں۔

احمد علی کا کہنا تھا کہ پشاور میں صرف تین دکانوں کے مالکان ایسے ہیں جو آلاتِ موسیقی -- خصوصاً دف تیار اور مرمت کرتے ہیں، ان کا مزید کہنا تھا کہ تینوں دکانوں کے مالک آپس میں خونی رشتہ دار ہیں۔

انہوں نے کہا، "پورے خیبرپختونخوا (کے پی) میں اور حتیٰ کہ ہمسایہ افغانستان میں بھی، پشاور کی ان چند دکانوں کے علاوہ ماہر دف ساز کاریگر نہیں مل سکتے"۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ کاریگر اس عسکریت پسندی سے ابھی تک ڈگمگائے ہوئے ہیں جس نے سنہ 2007 سے 2016 تک کے پی کو اپنے پنجوں میں دبوچ رکھا تھا۔

احمد علی نے یادیں تازہ کرتے ہوئے بتایا، "ہمیں اپنے اوقاتِ کار کو کم کرنا پڑتا تھا یا کام کے دنوں میں چھٹی کرنا پڑتی تھی، جس نے ہماری آمدن کو بہت بری طرح متاثر کیا۔۔۔ اس عرصے کے دوران عسکریت پسندوں کی جانب سے حملوں کا خوف ہمیشہ ہمارے ذہنوں میں گھر کیے رہتا تھا"۔

احمد علی کے بڑے بھائی، رحیم مجتبیٰ نے کہا، "ان دنوں کے دوران ہم نے اپنا کام جاری تو رکھا مگر باقاعدگی سے نہیں، اس کی وجہ ان انتہاپسندوں کی جانب سے حملے کا خوف ہوتی تھی جن کا پہلا نشانہ موسیقی کے ساتھ منسلک لوگ ہوتے تھے"۔ مجتبیٰ گزشتہ 45 برسوں سے اس پیشے کے ساتھ وابستہ ہے۔

مجتبیٰ نے کہا کہ اگرچہ کلاسیکی موسیقی کا اب مزید رواج نہیں رہا، "ہم نے اس ہنر کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے جو ہمیں اپنے بڑوں سے ورثے میں ملا ہے"۔

ان کا کہنا تھا، "اس فن کے ساتھ طویل وابستگی نے اسے ہمارا جنون بنا دیا ہے، اور انتہاپسندوں کی جانب سے دھمکیاں یا معاشی کساد بازاری ہمیں کوئی اور روزگار اختیار کرنے پر مجبور نہیں کر سکتی"۔

ایک دف بجانے والے، زرتاج خان، نے کہا کہ وہ شائقینِ موسیقی کو اپنی خدمات فراہم کرنے پر اس خاندان کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔

زرتاج خان، جو کہ ضلع چارسدہ کے رہائشی ہیں اور اپنے شہر میں ایسے ماہر کاریگروں کی عدم دستیابی کی وجہ سے اپنے ساز مرمت کروانے کے لیے پشاور آئے تھے، نے کہا، "بصورتِ دیگر، نئی چیزوں کا ملنا یا خراب سازوں کی مرمت کروانا بہت مشکل تھا"۔

انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ دف کے فن کو محفوظ رکھنے میں ان کاریگروں کی جانب سے پیش کردہ خدمات کا اعتراف کیا جائے اور انہیں ماہانہ وظیفہ فراہم کیا جائے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

کیا آپ زیرِ ذکر تین دکانوں کے لنک یا ہو سکے تو نام دے سکتے ہیں؟ نہایت قدر دانی کی جائے گی.

جواب