سلامتی

پنجاب میں گزشتہ تین سالوں میں دہشت گردی کے واقعات میں 90 فیصد کمی

ضیا الرحمان

نیم عسکری فوجی، 9 دسمبر کو راولپنڈی کے پنڈی کرکٹ اسٹیڈیم کے باہر گشت کر رہے ہیں۔ انسدادِ دہشت گردی کے حکام کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال سے صوبہ پنجاب میں دہشت گردی سے متعلقہ ہلاکتوں میں کمی آئی ہے۔ [عامر قریشی/ اے ایف پی]

نیم عسکری فوجی، 9 دسمبر کو راولپنڈی کے پنڈی کرکٹ اسٹیڈیم کے باہر گشت کر رہے ہیں۔ انسدادِ دہشت گردی کے حکام کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال سے صوبہ پنجاب میں دہشت گردی سے متعلقہ ہلاکتوں میں کمی آئی ہے۔ [عامر قریشی/ اے ایف پی]

لاہور -- پنجاب پولیس کے انسدادِ دہشت گردی کے شعبہ (سی ٹی ڈی) کے سینئر حکام کا کہنا ہے کہ گزشتہ تین سالوں کے دوران ہونے والے سیکورٹی کریک ڈاون کے باعث، صوبہ پنجاب میں دہشت گردی کے واقعات میں 90 فیصد کمی آئی ہے۔

حدف بنائے جانے والے گروہوں میں تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، القاعدہ، دولتِ اسلامیہ (داعش) کی علاقائی شاخ جو کہ داعش -کے کہلاتی ہے اور اس کی ساتھی لشکرِ جھنگوی (ایل ای جے) اور حزب الحرار (ایچ یو اے) شامل ہیں۔

پنجاب جو کہ ملک کا سب سے گنجان آباد صوبہ ہے، یہ عسکریت پسند گروہ عام طور پر چھوٹے سلیپر سیلوں کی صورت میں کام کرتے ہیں۔

پنجاب سی ٹی ڈی کے ایک سینئر اہلکار محمد ظاہر رائے نے کہا کہ "دہشت گرد گروہوں کا خاتمہ کرنے کا عمل، خصوصی طور پر ان کے سہولت کاروں اور سرمایہ کاروں کے خاتمے کا عمل جاری ہے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ایسے گروہوں اور تنظیموں کی خصوصی نگرانی کر رہے ہیں جو انتہاپسندی اور فرقہ واریت کو ہوا دینے میں ملوث ہیں"۔

کراچی سول سوسائٹی کے سرگرم کارکن مئی میں، اس خودکش دھماکے کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں جو لاہور کے ایک صوفی مزار پر ہوا تھا۔ [ضیا الرحمان]

کراچی سول سوسائٹی کے سرگرم کارکن مئی میں، اس خودکش دھماکے کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں جو لاہور کے ایک صوفی مزار پر ہوا تھا۔ [ضیا الرحمان]

انہوں نے کہا کہ صوبہ پنجاب جو کسی زمانے میں فرقہ ورانہ تشدد سے متاثر تھا، میں گزشتہ تین سالوں میں دہشت گردی کا کوئی ایسا واحد واقعہ نہیں دیکھا گیا ہے جس میں فرقہ واریت ملوث ہو۔

پنجاب سی ٹی ڈی کے مطابق، صوبہ میں حکام نے اس سال دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو خلاف مقدمات دائر کیے اور ملزمان کو گرفتار کیا۔

اس سال ایک واقعہ میں، سیکورٹی فورسز نے 21 مئی کو ایچ یو اے کے ایک رکن کو گرفتار کیا جس نے اس ماہ کے آغاز میں لاہور کےایک صوفی مزار پر ہلاکت خیز خودکش دھماکےکو ممکن بنانے میں مدد کی تھی۔ اس حملے میں 12افراد جن میں 5 پولیس اہلکار بھی شامل تھے، ہلاک ہو گئے تھے۔

نومبر میں، انسدادِ دہشت گردی کی ایک عدالت نے اسے سزائے موت سنائی۔

اعداد و شمار کے مطابق، حکام نے اس سال کے آغاز سے 30 نومبر تک، 5 خودکش جیکٹیں، 100 کلوگرام گولہ بارود، 125 دستی بم، 200 ڈیٹونیٹرز، 15 کلاشنکوفیں اور کئی پستول بازیاب کیے ہیں۔

گرفتار کیے جانے والے310 ملزمان کے بارے میں، حکام نے مختلف عدالتوں میں267 کے خلاف فردِ جرم عائد کی ہے۔ عدالتوں نے ان میں سے136 کو سزا سنائی۔

سی ٹی ڈی نے اسی عرصے میں دیگر173 ملزمان کو گرفتار کیا، ان پر دہشت گردوں کو مبینہ طور پر مالی امداد فراہم کرنے کا الزام ہےاور ان کے قبضے سے 12 ملین روپے (77,444 ڈالر) بازیاب کیے گئے۔

آزاد سیکورٹی تھنک ٹینکس نے دہشت گردی سے متعلقہ ہلاکتوں میں کمی کی تصدیق کی ہے۔

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے سیکورٹی کے ایک تھنک ٹینک پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز (پی آئی پی ایس) کی سالانہ سیکورٹی رپورٹ کے مطابق، پنجاب میں دہشت گردی کے حملے، 2017 کے مقابلے میں 2018 میں 71 فیصد کم ہو گئے اور ان حملوں میں ہلاک اور زخمی ہونے والوں کی تعداد بالترتیب 67 فیصد اور80 فیصد کم ہو گئی۔

دہشت گردوں کی دھمکیاں

دی ساوتھ ایشیائ ٹییررازم پورٹل (ایس اے ٹی پی) جو کہ دہشت گردی کے گروہوں کی نگرانی کرنے والی ویب سائٹ ہے، نے بھی دہشت گرد گروہوں، خصوصی طور پر داعش-کے کے خلاف پنجاب سی ٹی ڈی کی کامیابی کی تصدیق کی ہے۔

ایس اے ٹی پی کے مطابق، 2019 میں داعش-کے کے بہت سے دہشت گرد، صوبہ پنجاب کے مختلف علاقوں میں ہلاک ہو گئے تھے۔

حکام نے کہا کہ نومبر میں، سی ٹی ڈی نے داعش-کے سے تعلق رکھنے والے تین ملزمان کو مختلف چھاپوں کے دوران گرفتار کیا اور ان کے قبضے سے دھماکہ خیز مواد اور ہتھیار بازیاب کیے۔ یہ ملزمان حساس حکومتی تنصیبات پر حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔

ایک سینئر انٹیلیجنس اہلکار نے اپنا نام نہ بتانے کی شرط پر کہا کہ پنجاب سی ٹی ڈی اور پاکستان کی انٹیلیجنس بیورو کے درمیان دہشت گردی کی دھمکیوں اور بین الملکی عسکریت پسند گروہوں کے درمیان تعاون نے سیکورٹی کی صورتِ حال کو بہتر بنانےمیں مدد کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ 2018 میں، ٹی ٹی پی اور ایچ یو اے نے مقامی انتظام کنندگان کے ذریعے اپنا ڈھانچہ دوبارہ منظم کرنے کی کوشش کی۔ تاہم، قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں انٹیلیجنس کے مشترکہ آپریشن کے ذریعے اس نیٹ ورک کو توڑنے میں کامیاب رہیں۔

پی آئی پی ایس کی رپورٹ کے مطابق، اس سال ٹی ٹی پی اور ایچ یو اے نے پنجاب میں چار حملے کیے جس میں دو خودکش دھماکے بھی شامل تھے، ان میں کل 20 افراد ہلاک اور دیگر 39 زخمی ہو گئے تھے۔

اہلکار کے مطابق، داعش-کے نے اپنی مقامی ساتھیوں جن میں ایل ای جے بھی شامل ہے، پنجاب میں داخل ہونے کی کوشش کی مگر اب یہ خطرہ دو وجوہات سے ختم ہو چکا ہے۔

انہوں نے ایل ای جے کے راہنما ملک اسحاق کی 2015 میں سی ٹی ڈی کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں مظفر گڑھ میں ہلاکت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ "ایک تو ایل ای جے کی کمزوری ہے جس سے داعش-کے پاکستان میں اور پنجاب میں اس کے راہنماؤں کی ہلاکت کے بعد زیادہ تر امداد حاصل کر رہی ہے"۔

اہلکار نے کہا کہ "دوسرا، داعش کی مشرقِ وسطی میں حالیہ شکست نے پہلے سے موجود پاکستانی عسکریت پسندوں کی طرف سے مزید بھرتی کو روک دیا ہے جو کہ عام طور پر بین الملکی عسکریت پسند گروہوں جیسے کہ داعش اور القاعدہ سے متاثر ہوتے ہیں"۔

داعش کا دغاباز راہنما ابوبکر البغدادی، داعش کے بہت سے دیگر عسکریت پسندوں کے ساتھ، 26 اکتوبر کی رات کوامریکی خصوصی افواج کی طرف سے شام میں مارے جانے والے ایک حملے میں ہلاک ہو گئے تھے۔

یہ حملہ اس وقت اختتام پذیر ہوا جب البغدادی کو ایک سرنگ میں گھیر لیا گیا اور اس نے اپنی خودکشی کی جیکٹ اڑا دی جس سے وہ خود اور اس کے تین بچے ہلاک ہو گئے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500