صحت

پاکستانی ڈاکٹروں نے دہشت گردی کے متاثرین کے علاج کے لیے افغان ساتھیوں کو تربیت دی ہے

اشفاق یوسف زئی

ایک زخمی افغان شخص قندھار، افغانستان میں زیرِ علاج ہے۔ افغان ڈاکٹروں کو پاکستان میں جو تربیت ملتی ہے وہ ان لوگوں کے خصوصی علاج میں انتہائی اہمیت کی حامل ہے جو عسکریت پسندوں کے حملوں سے متاثر ہوئے ہیں۔ [جاوید تنویر/ اے ایف پی]

ایک زخمی افغان شخص قندھار، افغانستان میں زیرِ علاج ہے۔ افغان ڈاکٹروں کو پاکستان میں جو تربیت ملتی ہے وہ ان لوگوں کے خصوصی علاج میں انتہائی اہمیت کی حامل ہے جو عسکریت پسندوں کے حملوں سے متاثر ہوئے ہیں۔ [جاوید تنویر/ اے ایف پی]

پشاور -- پاکستانی ڈاکٹر اور دیگر طبی عملہ جو کہ شدید طور پر جلنے اور جسم کے بدنما ہو جانے کے علاج میں مہارت رکھتا ہے، اپنے افغان ہم منصوبوں کو ان متاثرین کا علاج کرنے میں مدد فراہم کر رہا ہے کو دہشت گردانہ حملوں کا شکار ہوئے ہیں۔

برنز اینڈ پلاسٹک سرجری سینٹر حیات آباد پشاور کے ڈائریکٹر پروفیسر محمد طاہر نے کہا کہ اور میں "ہم نے افغانستان سے تعلق رکھنے والے 150 ڈاکٹروں، نیم طبی عملے اور نرسوں کو جلنے اور مَجروحیت کے علاج کے لیے تربیت فراہم کی"۔

یہ مرکز جو کہ امریکی ایجنسی برائے بین الاقوامی ترقی (یو ایس ایڈ) کی مدد کے ساتھ قائم کیا گیا تھا، نے نومبر 2018 میں کام کرنا شروع کیا۔ ابھی تک اس نے 20،000 مریضوں کا علاج کیا ہے اور ان میں سے 20 فیصد ایسے افغان شہری تھے جنہیں جلنے، مَجروحیت یا دہشت گردی سے متعلقہ زخموں کے باعث پیچیدگیوں کا سامنا تھا۔

انہوں نے کہا کہ "افغان ڈاکٹروں نے ایسے مریضوں کو علاج فراہم کیا جنہیں زیادہ پیچیدہ مسائل کا سامنا نہیں تھا مگر انہوں نے زیادہ بڑے اور پیچیدہ مریضوں کو ہمارے پاس بھیج دیا"۔

پانچ دسمبر کی اس تصویر میں ایک افغان بچے کو دکھایا گیا ہے جو حیات آباد پشاور میں برنز اینڈ پلاسٹک سرجری سینٹر میں زیرِعلاج ہے۔ [اشفاق یوسف زئی]

پانچ دسمبر کی اس تصویر میں ایک افغان بچے کو دکھایا گیا ہے جو حیات آباد پشاور میں برنز اینڈ پلاسٹک سرجری سینٹر میں زیرِعلاج ہے۔ [اشفاق یوسف زئی]

جلنے والا ایک افغان بچہ برنز اینڈ پلاسٹ سرجری سینٹر حیات آباد پشاور میں 5 دسمبر کو زیرِعلاج ہے۔ [اشفاق یوسف زئی]

جلنے والا ایک افغان بچہ برنز اینڈ پلاسٹ سرجری سینٹر حیات آباد پشاور میں 5 دسمبر کو زیرِعلاج ہے۔ [اشفاق یوسف زئی]

ایک افغان استاد، نور شاہ کا گزشتہ ایک ماہ سے اس مرکز میں علاج ہو رہا ہے۔ مارچ میں کابل میں ہونے والے بم دھماکے میں بگڑ جانے والے چہرے کو ٹھیک کرنے کے لیے ابھی تک ان کے تین آپریشن ہو چکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ "پہلے میں افغانستان کے ننگرہار صوبہ کی شینواری ڈسٹرکٹ میں برن اینڈ پلاسٹک سرجری وارڈ میں گیا اور ابتدائی علاج کے بعد، مجھے یہاں بھیج دیا گیا۔ ہم ان ڈاکٹروں کے بہت شکرگزار ہیں جنہوں نے ہمیں معذوری اور جسم کے بگڑ جانے سے بچایا ہے"۔

طاہر نے کہا کہ پاکستان میں ضرورت مند افغان شہریوں کو علاج فراہم کرنے کے علاوہ، پاکستان نے جرمنی سے تعلق رکھنے والے پاکستان افغانستان تاجکستان ریجنل انٹیگریڈ پروگرام (پی اے ٹی آر آئی پی) کی مدد سے 2015 میں افغانستان کے ہسپتالوں میں بیس بیس بستروں والے دو وارڈ کھولے تاکہ بم دھماکوں کے متاثرین کا علاج کیا جا سکے۔

جلال آباد سے تعلق رکھنے والے ایک ڈاکٹر بختیار احمد نے کہا کہ وہ نومبر کے وسط میں پشاور آیا تھا تاکہ تین ہفتوں کے ایک تربیتی پروگرام میں حصہ لے سکے جو اس کے آبائی ملک میں مریضوں کا علاج کرنے میں اس کی مدد کرے گا۔

انہوں نے کہا کہ "ہمارے پاس جلنے اور بم دھماکوں میں زخمی ہونے والے مریض آتے ہیں جن کے لیے سہولیات میسر نہیں ہیں۔ افغان حکومت نے 20 ڈاکٹروں کو تربیت کے لیے بھیجا ہے تاکہ وہ افغانستان کے مقامی ہسپتالوں میں مریضوں کا علاج کر سکیں"۔

احمد نے کہا کہ یہ تربیت افغان ڈاکٹروں کو اس قابل بنائے گی کہ وہ آبائی ملک میں ایسے زخموں کا مناسب علاج فراہم کر سکیں۔انہوں نے کہا کہ بم دھماکوں میں زخمی ہو جانے والوں میں سے اکثریت کو پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اگر مناسب تربیت یافتہ ڈاکٹر موجود ہوں تو ان سے بچا جا سکتا ہے۔

مفت آپریشن

کابل سے تعلق رکھنے والے طبی ٹیکنیشن عزیز الرحمان جو کہ اس تربیت میں شرکت کر رہے ہیں، نے کہا کہ طالبان کی طرف سے کئی دیہائیوں تک کیے جانے والے تخریب کارانہ اقدامات کا مطلب ہے کہ افغان شہریوں کے پاس ایسے زخموں کے علاج کے لیے خصوصی طبی سہولیات موجود نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ "عسکریت پسندوں کی طرف سے ایسی تقریبا 150 طبی سہولیات کو تباہ کیا جا چکا ہے جس سے عوام کو بے یارومددگار چھوڑ دیا گیا ہے۔ مگر پاکستانی ڈاکٹر بہتر طبی علاج کو یقینی بنانے میں ہماری مدد کر رہے ہیں"۔

رحمان نے کہا کہ "ہمارے لوگ ہسپتالوں اور اسکولوں کو نقصان پہنچانے پر عسکریت پسندوں کو گالیاں دیتے ہیں جبکہ وہ ان مشکل حالات میں مدد کرنے پر پاکستان کا شکریہ ادا کرتے ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ "افغانستان میں وارڈ ساز و سامان سے پوری طرح لیس ہیں مگر ہمیں پھر بھی تربیت کی ضرورت ہے"۔

پاکستانی پلاسٹک سرجن گاہے بگاہے افغانستان جاتے ہیں تاکہ مقامی ڈاکٹروں، نیم طبی عملے اور نرسوں کو پلاسٹک سرجری اور جلنے سے آنے والے زخموں کا علاج کرنے کے سلسلے میں تربیت فراہم کر سکیں۔ وہ دہشت گردی میں زخمی ہونے والی نوجوان خواتین کو بھی مفت پلاسٹک سرجری فراہم کرتے ہیں۔

شیما بی بی جو کہ گزشتہ ستمبر میں ہرات صوبہ میں ہونے والے راکٹ کے ایک حملے میں زخمی ہو گئی تھیں، نے کہا کہ وہ چار طبی آپریشنز کے بعد جس میں ان کی گردن اور چہرے کی پلاسٹک سرجری بھی شامل ہے، اب کافی صحت یاب ہو گئی ہیں۔

پندرہ سالہ نے کہا کہ "مجھے اپنے مستقبل کی انتہائی زیادہ فکر تھی کیونکہ میں اپنی گردن کو ہلا نہیں سکتی تھی۔ اب میں بہت زیادہ خوش ہوں کیونکہ میں ایک بار پھر نارمل ہو گئی ہوں"۔

خان نے کہا کہ پاکستانی ڈاکٹر ایسا دوبارہ سے بنانے کا کام مفت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں خواتین کو پلاسٹک سرجری تک رسائی حاصل نہیں ہے۔

افغانستان میں ایسے چند ہی سرجن موجود ہیں اور خواتین پر موجود سماجی دباؤ انہیں ایسا کام کرنے سے ویسے بھی روکے رکھتا ہے۔

خان نے کہا کہ افغانستان میں خواتین کے پاس پلاسٹک سرجری تک رسائی موجود نہیں ہے اور یہ ہی وجہ ہے کہ پاکستانی ڈاکٹر انہیں یہ سہولت مفت فراہم کرتے ہیں۔ یہ اقدامات خواتین کو ان کے جسمانی اور ذہنی زخموں سے صحت یاب ہونے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔

خان نے مزید کہا کہ دہشت گردی کے حملوں میں بدصورت ہو جانے والی خواتین کو اکثر معاشرہ مسترد کر دیتا ہے۔ پلاسٹک سرجنوں کی طرف سے کیا جانے والا کام انہیں زندگی میں ایک نیا موقع فراہم کرتا ہے۔

افغانستان کے عوامی صحت کے وزیر فیروز الدین فیروز نے کہا کہ پاکستان اور پیٹراپیئر کی طرف سے ملک میں قائم کیے جانے والے دو ہسپتال، صحت عامہ کی سہولیات کو مضبوط بنانے میں انتہائی اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ "ہم صحت عامہ کی خصوصی سہولیات کو حاصل کرنے میں پاکستان کے ساتھ مزید تعاون کرنے کے مشتاق ہیںکیونکہ صحت عامہ کے بارے میں صورتِ حال کافی خراب ہے۔ زیادہ تر تربیت یافتہ ڈاکٹر دہشت گردی کے باعث ملک چھوڑ کر جا چکے ہین جس سے مریضوں کی دیکھ بھال پر بہت منفی اثرات ہوئے ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کا شکار ہونے والے دونوں ملکوں کو دہشت گردوں کی طرف سے عام شہریوں کو نقصان پہنچانے کی کوششوں کو ناکام بنانے کے لیے مزید تعاون کی ضرورت ہے"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500