تعلیم

پشاور کی سکھ برادری کے لیے نیا اسکول بین المذہبی ہم آہنگی کو اجاگر کرتا ہے

محمد شکیل

سکھ طلباء، 15 نومبر کو بابا گرونانک اسکول آف سٹیم میں کمپیوٹر کی صلاحیتیں سیکھ رہے ہیں۔ [محمد شکیل]

سکھ طلباء، 15 نومبر کو بابا گرونانک اسکول آف سٹیم میں کمپیوٹر کی صلاحیتیں سیکھ رہے ہیں۔ [محمد شکیل]

پشاور -- خیبر پختتونخواہ (کے پی) کے حکام نے حال ہی میں بابا گرونانک اسکول برائے سائنس، ٹیکنالوجی، انجنیرنگ، آرٹ اینڈ میتھ (سٹیم) کا افتتاح کیا ہے تاکہ پشاور میں سکھ برادری کی ترقی میں مدد فراہم کی جا سکے۔

یہ قدم جو کہ 15 نومبر کو اٹھایا گیا، اقلیتوں کو پاکستان کے مرکزی دھارے میں شامل کرنے کی کوششوں کی عکاسی کرتا ہے جو کہ 2014 میں انتہاپسند شورش کے خلاف شروع ہونے والی مہم کی کامیابیکے باعث ممکن ہوا ہے۔

یہ اسکول سکھ برادری کی طرف سے چلائے جانے والے اسکول رائزنگ ہوپ جو کہ سکھوں کے اکثریتی علاقے ڈبگری میں واقع ہے، کے حصہ کے طور پر قائم کیا گیا ہے۔

رائزنگ ہوپ اسکول کی گورننگ باڈی کے چیرمین بابا گرپال نے 5 دسمبر کو کہا کہ یہ اسکول جو کہ اپنی نوعیت کا پہلا اسکول ہے، حکومت کی طرف سے سکھ برادری کو کمپوٹروں کے ذریعے سٹیم کی تربیت فراہم کرنے کے لیے قائم کیا گیا "کے پی حکومت کی طرف سے اقلیتوں کو آگے لانے کے اس کے عزم کو دکھاتا ہے"۔

ایک سکھ طالبِ علم 15 نومبر کو بابا گرونانک اسکول آف سٹیم میں کمپیوٹر کی صلاحیتوں کی مشق کر رہا ہے۔ [محمد شکیل]

ایک سکھ طالبِ علم 15 نومبر کو بابا گرونانک اسکول آف سٹیم میں کمپیوٹر کی صلاحیتوں کی مشق کر رہا ہے۔ [محمد شکیل]

انہوں نے کہا کہ "کے پی کی حکومت مفاہمت کی ایک یادداشت کے تحت درکار عملہ اور اساتذہ فراہم کرے گی جبکہ دیگر بنیادی سہولیات جن میں بجلی اور سیکورٹی کے انتظامات شامل ہیں، سکھ برادری فراہم کرے گی"۔

سنگھ کے مطابق، اس سیٹ اپ سے سکھوں کے لیے پیش رفت اور ترقی کے نئے دروازے کھلیں گے اور انہیں مرکزی دھارے میں لایا جا سکے گا۔

یہ قدم، امن کے بعدبین المذہبی ہم آہنگی کی موجودہ صورتِ حال کو بھی اجاگر کرتا ہے۔ یہ ملک کے ایک نرم تصور کو بھی پیش کرے گا جہاں اقلیتی اور اکثریتی برادریاں پرامن طریقے سے رہتی ہیں اور مل جل کر رہنے کے زبردست ماحول سے لطف اندوز ہوتی ہیں۔

اسکول کے پرنسپل عمیر زاہد نے کہا کہ پہلے مرحلے میں، کے پی کے انفرمیشن ٹیکنالوجی ڈپارٹمنٹ نے دو کمروں میں آٹھ کمپیوٹر لگائے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ "وقت گزرنے کے ساتھ اور طلباء کی تعداد کو مدِنظر رکھتے ہوئے، اسکول میں مزید اضافے کیے جائیں گے"۔

زاہد نے کہا کہ "کمپیوٹر کے ذریعے انہیں سائنس اور حساب کے نئے میدانوں میں لے جانا ایک ایسا قدم ہے جس سے ذہنی سوچ بدلے گی اور ان میں اس جدید میدان میں مزید مہارت حاصل کرنے کے لیے اشتیاق پیدا ہو گا"۔

انہوں نے کہا کہ طلباء کو احساس ہو رہا ہے کہ بہتر مستقبل حاصل کرنے کا راستہ تعلیم کی طرف نئے طریقہ کار کا مطالبہ کرتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ "حکومت کے اس قدم سے نوجوان سکھوں کا زندگی کی طرف نقطہ نظر تبدیل ہو گا اور سرکاری و نجی شعبوں کی ملازمتوں میں ان کے داخلے کا راستہ ہموار ہو گا"۔

انتہاپسندی کے خلاف ہتھیار

اسکول کے چیف ایگزیکٹیو ہردیال سنگھ کے مطابق سکھ عورتوں کی اکثریت غیر تعلیم یافتہ ہے۔

سنگھ نے کہا کہ "ہمارے بچوں کو جدید دور کی تعلیم کی سہولیات فراہم کرنا اس بات کی یقین دہانی ہے ۔۔۔ حکومت کی طرف سے کہ اقلیتوں کو اپنے خواب پورے کرنے اور معاشرے کا مفید حصہ بننے اور ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے سہولیات فراہم کی جائیں گی"۔

سنگھ جن کے والد کو 2007 میں طالبان نے اغوا کر لیا تھا، کہا کہ تعلیم انسانوں کی دنیا کے بارے میں سوچ کو تبدیل کرنے میں انتہائی اہم عنصر ہے اور یہ منفیت اور انتہاپسندی کی لعنتوں کے بارے میں نقطہ نظر فراہم کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ "پسماندہ اور غیر تعلیم یافتہ افراد، انتہاپسند اور عسکریت پسند عناصر کا نشانہ بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں جبکہ تعلیم ایک ایسا ہتھیار ہے جو ہمیں اچھائی کو برائی سے الگ کرنے اور درست کو غلط سے الگ کرنے میں مدد کرتا ہے"۔

کے پی کے وزیرِاعلی کے خصوصی مشیر اور کے پی اسمبلی کے ایک رکن کامران خان بنگش نے کہا کہ "ہم مسلمان، سکھ، عیسائی اور ہندو برادریوں اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کو ملک کی متحدہ ترقی کی دوڑ میں شامل کر کے، ملک کی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے کام کر رہے ہیں"۔

بنگش نے کہا کہ صوبائی حکومت اقلیتوں کی ترقی اور انہیں آگے لانے کے مقصد کے لیے مزید سہولیات قائم کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ "ملک میں اقلیتیں اور اکثریت ایک جیسی سہولیات سے لطف اندوز ہو رہی ہیں اور وہ ترقی اور خوشحالی کے برابر کے مواقع کی حق دار ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ اس اسکول کا قیام کے پی کے ڈپارٹمنٹ آف انفرمیشن ٹیکنالوجی کی طرف سے سکھ برادری کو سٹیم تعلیم فراہم کرنے کے سلسلے میں ایک سنگِ میل کامیابی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ "اقلیتوں کو حکومت کی طرف سے جدید دور کی تعلیم حاصل کرنے میں مکمل مدد اور سہولت فراہم کی جائے گی"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500