دہشتگردی

کے پی پولیس کی جانب سے مطلوب ترین دہشت گرد اور مجرم ملزمان کی تصاویر کی اشاعت

از جاوید خان

پشاور کا ایک شہری 23 نومبر کو پشاور پولیس کی ویب سائٹ دیکھتے ہوئے جہاں جرائم اور دہشت گردی کی کارروائیوں کے 3،000 سے زائد ملزمان کی تصاویر اور تفصیلات دکھائی گئی ہیں۔ [جاوید خان]

پشاور کا ایک شہری 23 نومبر کو پشاور پولیس کی ویب سائٹ دیکھتے ہوئے جہاں جرائم اور دہشت گردی کی کارروائیوں کے 3،000 سے زائد ملزمان کی تصاویر اور تفصیلات دکھائی گئی ہیں۔ [جاوید خان]

پشاور -- پشاور پولیس مجرمان کی نشاندہی کرنے میں عوام کی مدد کرنے اور قانون نافذ کرنے والے افسران کو چوکس کرنے کی ایک کوشش میں ہزاروں دہشت گردی کے ملزمان اور دیگر مفروروں کی تصاویر آن لائن شائع کر رہی ہے۔

پشاور کیپیٹل سٹی پولیس افسر کریم خان نے کہا، "ہم نے عوام کی آگاہی کے لیے اپنی ویب سائٹ پر دہشت گردوں، بھتہ خوروں، قاتلوں اور دیگر گھناؤنے جرائم میں ملوث افراد سمیت 3،000 سے زائد مجرموں کی تصاویر اور تفصیلات رکھی ہیں۔"

مطلوب افراد کی فہرست میں شامل بیشتر پر کئی اقسام کے جرائم میں الزامات عائد کیے گئے ہیں بشمول بم دھماکے، پولیس اور دیگر دفاعی اہلکاروں پر حملے،ٹارگٹ کلنگز اور بھتہ خوری۔

خان نے کہا، "ان کی تصاویر اور مقدمات ویب سائٹ پر اپ لوڈ ہونے سے، ان کے علاقوں کے لوگوں کو پتہ چلے گا کہ یہ لوگ دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ملوث ہیں اور یہ انہیں گرفتار کرنے میں محکمے کی مدد بھی کرے گا۔"

پشاور کا ایک شہری 24 نومبر کو ایک اخبار پڑھتے ہوئے جس میں خیبرپختونخوا کے مطلوب ترین دہشت گرد ملزمان کے چہرے اور تفصیلات شائع کی گئی تھیں۔ [جاوید خان]

پشاور کا ایک شہری 24 نومبر کو ایک اخبار پڑھتے ہوئے جس میں خیبرپختونخوا کے مطلوب ترین دہشت گرد ملزمان کے چہرے اور تفصیلات شائع کی گئی تھیں۔ [جاوید خان]

دہشت گردی کے ملزمان کے ساتھ ساتھ، منشیات کی سمگلنگ، جنسی حملے، بچوں پر جنسی حملے، اور دیگر بڑے جرائم کے الزامات کے ساتھ تعلق پر دیگر مطلوب مفروروں کی ایک بڑی تعداد ویب سائٹ (www.peshawarpolice.gov.pk) پر دکھائی گئی ہے۔ پولیس نے مفروروں کی تصاویر اور تفصیلات آویزاں کی ہیں۔

ویب سائٹ پر ایک شکایات کا سیکشن، پولیس کی معاونت کے لیے فون لائنیں،تنازعات کے حل کی کونسلیں اور محکمۂ پولیس کی جانب سے پیشکش کردہ دیگر سہولیاتدیئے گئے ہیں۔

خان نے کہا، "کوئی بھی شخص جسے پولیس کے متعلق کوئی بھی شکایت ہے وہ اعلیٰ پولیس افسران تک رسائی کے لیے ویب سائٹ پر دیئے گئے پتوں پر تحریری پیغام یا ای میل بھیج سکتا ہے جو بغیر کوئی وقت ضائع کیے اس کا جواب دیتے ہیں۔"

تصاویر میں بین الاقوامی دلچسپی

پولیس حکام کی ویب سائٹ پر عوامی ردِ عمل سے بہت حوصلہ افزائی ہوئی ہے، جو اکتوبر کے پہلے ہفتے شروع کی گئی تھی۔

خان نے کہا، "پہلے تین ہفتوں کے دوران، ویب سائٹ پر 560،210 لوگ آئے، جس میں سے دسیوں ہزاروں بیرونِ ملک سے تھے۔"

پولیس نے یہ وضاحت نہیں کی کہ ویب سائٹ دیگر ممالک سے لوگوں کے لیے کشش کا باعث کیوں ہے، مگر وہ دیارِ غیر میں مقیم پاکستانی ہو سکتے ہیں۔

پشاور پولیس کے ایک ترجمان، محمد الیاس نے کہا، "پہلے تین ہفتوں میں ویب سائٹ پر پاکستان سے 436،362 لوگ آئے، اس کے بعد امریکہ سے 81،116، ہنگری سے 22،040 اور سعودی عرب سے 4،793 لوگ آئے۔"

مزید برآں، 3،531 لوگوں نے متحدہ عرب امارات سے اور 3،320 افراد نے برطانیہ سے ویب سائٹ کو دیکھا۔

الیاس کا کہنا تھا، "ویب سائٹ صوبے میں اور باقی ماندہ ملک میں لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد کی ان لوگوں کو جاننے میں مدد کر رہی ہے جو دہشت گرد حملوں اور دیگر عام جرائم میں مطلوب ہیں۔"

انہوں نے کہا کہ عوام تصاویر شائع کرنے کے اقدام کو سراہتے ہیں۔

پشاور کے نواح میں رہنے والے ایک شہری، عبدالوہاب نے کہا، "یہ ناصرف ان سے ایک محفوظ فاصلہ رکھنے میں عوام کی مدد کرے گا، بلکہ یہ ان پر ہاتھ ڈالنے میں پولیس کی بھی مدد کرے گا۔"

انہوں نے کہا کہ قانون کی پابندی کرنے والے شہریوں کو ان جرائم کے ملزمان کا سماجی بائیکاٹ کرنا چاہیئے۔

عبدالوہاب نے کہا، "بہت سے مجرم جیل ہونے کے بعد اپنی رہائش گاہ تبدیل کر لیتے ہیں، مگر ان کی تصاویر اور تفصیلات دوسروں کو ان کے ماضی کے متعلق بتائیں گی اور وہ ان سے دور رہیں گے۔"

دہشت گردی کے مطلوب ترین ملزمان

دریں اثناء، حکومت خیبرپختونخوا (کے پی) نے مطلوب ترین 186 دہشت گردوں کی ایک نئی فہرست مقامی اخبارات میں چھپوائی ہے تاکہ انہیں گرفتار کرنے میں عوام کی مدد مانگی جائے۔

ماضی میں حکومت ان مفروروں کو گرفتار کروانے کے لیے معلومات دینے پر انعامی رقم کا اعلان کرتی تھی۔

کے پی پولیس کے ایک اہلکار، جنہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی تھی، نے بتایا، "گزشتہ چند برسوں میں عوام کی مدد سے مطلوب ترین دہشت گردوں کی ایک بڑی تعداد گرفتار کی جا چکی ہے۔"

ان کا کہنا تھا کہ حکومت اور پولیس ان لوگوں کے ناموں کا انکشاف نہیں کرتے جو دہشت گردوں کے متعلق معلومات فراہم کرنے پر انعامی رقم وصول کرتے ہیں۔

ملزمان کا تعلق پورے کے پی سے ہے، بشمول صوابی، پشاور، بنوں، مردان اور دیگر کئی اضلاع۔

انعامی رقم کی حد 500،000 روپے (3،200 ڈالر) سے لے کر 5 ملین روپے (32،000 ڈالر) تک ہے۔

بنوں کے اختر محمد، ڈیرہ اسماعیل خان کے محمد الیاس، صوابی کے سیدالاکبر اور فیض محمد، دیر کے سجاد (عرف ڈاکٹر طلحہ) اور سید علی شاہ پر سب سے زیادہ انعام 5 ملین روپے فی کس ہے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 3

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

مجھے آخری دکھائیں

جواب

انشااللہ

جواب

تمام ریاستوں کو اس شاندار اقدام کی پیروی کرنی چاہیئے

جواب