سلامتی

داعش جھوٹی ذمہ داری قبول کر کے پاکستان میں اپنی موجودگی بڑھانے کی کوشش میں

ضیاء الرحمان

پیراملٹری رینجرز 15 اگست کو کراچی میں سیکورٹی کے لیے تلاشی لے رہے ہیں۔ [ضیاء الرحمان]

پیراملٹری رینجرز 15 اگست کو کراچی میں سیکورٹی کے لیے تلاشی لے رہے ہیں۔ [ضیاء الرحمان]

کراچی -- "دولتِ اسلامیہ" (داعش) نے گزشتہ چند ماہ میں، بہت سے دہشت گردانہ حملوں اور دیگر مجرمانہ سرگرمیوں کی جھوٹی ذمہ داری قبول کی ہے تاکہ کم ہوتی ہوئی خوش قسمتی کے سامنے گروہ کی موجودگی کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی کوشش کی جا سکے۔

ان جھوٹے دعوؤں کی تعداد میں،گزشتہ مارچ میں داعش کی طرف سے شام میں اپنے آخری علاقے کو کھو دینے کے بعد سے، اور مئی میں اس کی طرف سے "صوبہ پاکستان" بنانے کے بعد، جس سے بظاہر اس نے اپنی توجہ پاکستان اور انڈیا کی طرف مبذول کر لی ہے، اضافہ ہوا۔

گروہ کو اس وقت بھی بھاری نقصان اٹھانا پڑا جب داعش کے راہنما ابوبکر البغدادی، گزشتہ ماہ شام میں، امریکہ کی خصوصی فورسز کی طرف سے کیے جانے والے ایک حملے میں ہلاک ہو گئے تھے۔

داعش-کے جو اس کی خراسان شاخ کی طرف اشارہ ہے، نے اپنے پروپیگنڈا آوٹ لٹ عمق کے ذریعے پاکستان میں بہت سے حملوں کی ذمہ داری قبول کی مگر ان میں سے تقریبا ہر دعوی جھوٹا ثابت ہوا۔

سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کی جانے والی ایک حالیہ گروپ ویڈیو میں، داعش-کے، کے مبینہ ارکان کھڑے ہیں۔ گروہ کی طرف سے پاکستان میں حملوں کے بہت سے دعوے مکمل طور پر جھوٹ ثابت ہوئے ہیں۔ [فائل]

سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کی جانے والی ایک حالیہ گروپ ویڈیو میں، داعش-کے، کے مبینہ ارکان کھڑے ہیں۔ گروہ کی طرف سے پاکستان میں حملوں کے بہت سے دعوے مکمل طور پر جھوٹ ثابت ہوئے ہیں۔ [فائل]

حال ہی میں، گروہ نے کراچی میں بہت سے دہشت گردانہ حملے کرنے کے بارے میں شیخی بگھاری تھی جس میں پولیس افسران کو ہلاک کرنا بھی شامل تھا۔ یہ بات شہر سے تعلق رکھنے والے سینئر انٹیلیجنس افسر نے بتائی۔

اہلکار، جسے میڈیا سے بات کرنے کا اختیار نہیں ہے، نے کہا کہ "مگر یہ دعوے جھوٹے تھے اور وہ صرف شہر میں افراتفری پھیلانا چاہتے تھے"۔

ان دعوؤں میں، داعش نے باجوڑ ڈسٹرکٹ، جو کہ خیبر پختونخواہ میں حال ہی میں ضم ہونے والا علاقہ ہے، میں دو حملے کرنے کی ذمہ داری قبول کی۔

اس دہشت گرد گروہ نے 28 اکتوبر کو دعوی کی کہ اس نے مفتی سلطان محمد کو ہلاک کر دیا ہے جو کہ باجوڑ میں، جمعت علمائے اسلام (فضل) پارٹی کے راہنما تھے۔ گروہ نے 6 اگست کو ڈسٹرکٹ میں سیکورٹی فورسز پر ہونے والے ایک حملے کی ذمہ داری بھی قبول کی۔

باجوڑ میں قانون نافذ کرنے والے حکام نے کہا کہ داعش-کے کی طرف سے کیے جانے والے دعوؤں کا کئی قانون نافذ کرنے والی اور انٹیلیجنس ایجنسیوں نے بہت دھیان سے جائزہ لیا ہے۔

قانون نافذ کرنے والے اہلکار، جس نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی ہے، کہا کہ "ہمارا خیال ہے کہ یہ حملے مقامی عسکریت پسندوں نے کیے تھے اور داعش-کے، باجوڑ ڈسٹرکٹ میں دو حملوں کے بعد عسکریت پسندوں کے خلاف جاری کریک ڈاون سے صرف توجہ ہٹانا چاہتی تھی"۔

انہوں نے کہا کہ "حال ہی میں باجوڑ میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے مگر شہریوں کی مدد سے سیکورٹی کی صورتِ حال کنٹرول میں ہے"۔

بھرتی کرنے کی کوششیں

صوبہ بلوچستان میں صورتِ حال مختلف ہے جہاں قانون نافذ کرنے والے حکام کا کہنا ہے کہ داعش-کے نے مقامی عسکریت پسندوں، خصوصی طور پر کالعدم لشکرِ جھنگوی(ایل ای جے) سے تعلق رکھنے والوں، کو اپنی جماعت میں شامل ہونے کامیابی سے پھسلا لیا ہے۔

گروہ کی طرف سے نئے ارکان بھرتی کرنے کی کوششوں کا ایک حصہ حملوں کے ذریعے اپنی طاقت دکھانے کا ہے مگر ان کے کسی بھی دعوی کی تصدیق نہیں ہو سکی۔

کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے انٹیلیجنس کے اہلکار نے کہا کہ "یہ حملے مقامی عسکریت پسندوں نے کیے تھے مگر داعش-کے نے اپنے عالمی برانڈ کے باعث ان کی ذمہ داری قبول کر لی"۔

انہوں نے کہا کہ ایل ای جے اور دوسرے عسکریت پسند گروہ، قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کو پریشان کرنے اور ان کی توجہ اس وقت جاری کریک ڈاون سے ہٹانے کے لیے داعش کا نام استعمال کر رہے ہیں۔

مثال کے طور پر، داعش نے 20 مئی کو سوشل میڈیا کو استعمال کرتے ہوئے کہا کہ اس نے کراچی میں ایک پولیس افسر کو ہلاک کر دیا ہے۔

اہلکار نے اس ہلاک کے بارے میں کہا کہ "یہ ایک بالکل جھوٹا دعوی تھا"۔

گروہ کے لیے پاکستان میں صورتِ حال کو مزید بدتر کرتے ہوئے، ستمبر میں داعش کے 6 ارکان کوئٹہ میں ایک بڑے آپریشن کے دوران ہلاک ہو گئے اور اس کے دو راہنما مارچ میں سندھ میں ہلاک ہو گئے تھے۔

کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی، نعمت خان، جو کہ عسکریت پسند گروہوں پر گہری نظر رکھتے ہیں، نے کہا کہ داعش، اپنے مبینہ دہشت گردانہ حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے کے لیے سوشل میڈیا پر بھاری انحصار کرتی ہے۔

خان نے کہا کہ "مگر بہت سے واقعات میں، اس کے دعوے غلط ثابت ہوئے ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ کچھ واقعات میں، بہت سے دہشت گرد گروہ، جس میں داعش بھی شامل ہے، ایک ہی کام کی ذمہ داری قبول کر لیتے ہیں۔

داعش اپنی عمق نیوز ایجنسی کے ذریعے پروپیگنڈا شائع کرنے اور جھوٹے دعوے کرنے کی مشتاق ہے۔

لاہور سے تعلق رکھنے والے سوشل میڈیا کے منصوبہ ساز، امجد حسین نے کہا کہ گروہ بظاہر قادر مطلق نظر آنے کے لیے خوف پھیلانے کی کوشش کر رہی ہے۔

انہوں نے میڈیا آوٹ لٹس پر زور دیا کہ وہ عسکریت پسند گروہوں کی طرف سے، جو عوام میں دہشت پھیلانا چاہتے ہیں، کیے جانے والے جھوٹے دعوی شائع یا نشر کرنے سے پہلے تحقیق کر لیا کریں۔

داعش- کے مسائل

داعش کے راہنما البغدادی کی شام میں حالیہ ہلاکت، نے بھی داعش-کے کے اندر پیغامات کی کوششوں میں موجود گہری عدم مطابقت کو آشکار کیا ہے۔

البغدادی کی ہلاکت کی خبروں کے پھیلنے کے اگلے دن، ٹیلی گرام پر 27 اکتوبر کو، داعش-کے، کے میڈیا آوٹ لٹس کی طرف سے، جاری کی جانے والی نیم سرکاری خبروں اور 31 اکتوبر، جب داعش نے اپنے راہنما کی ہلاکت کو تسلیم کیا، میں قابل قدر فرق سے پتہ چلتا ہے کہ گروہ اپنی آوٹ ریچ کی کوششوں میں مسائل کا شکار ہے۔

داعش-کے، کے پیغامات میں ضوابط کی کمی سے ظاہر ہوتا ہے کہ گروہ بنیادی طور پر گمراہ ہو گیا ہے اور اس نے داعش کے بنیادی اصولوں کو چھوڑ دیا ہے۔

گروہ کو درپیش یہ جاری مسائل، ٹیلیگرام پر داعش-کے حامی گروہوں کی حالیہ بات چیت، جس میں داعش-کے کے ارکان کے درمیان اس بات پر تقسیم موجود تھی کہ کسے کافر تصور کیا جائے، کے کچھ دنوں کے بعد آئے ہیں۔

یہ پیغامات جو کہ 20 ستمبر سے پوسٹ ہونا شروع ہوئے، نے اس اختلاف کو آشکار کیا کہ آیا دوسرے عسکریت پسند گروہ جیسے کہ تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کافر ہیں۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500