تعلیم

سرکاری وظائف کا مقصد حساس نوجوانوں کو امداد دینا، شدت پسندی کی بیخ کنی کرنا ہے

از اشفاق یوسفزئی

وزیرِ اعظم عمران خان نومبر میں اسلام آباد میں طلباء و طالبات کے لیے وظائف کے ایک نئے پروگرام کی افتتاحی تقریب میں شریک ہیں۔ [عمران خان/فیس بُک]

وزیرِ اعظم عمران خان نومبر میں اسلام آباد میں طلباء و طالبات کے لیے وظائف کے ایک نئے پروگرام کی افتتاحی تقریب میں شریک ہیں۔ [عمران خان/فیس بُک]

پشاور -- حکومتِ پاکستان نے وظائف کا ایک پروگرام شروع کیا ہے جس کا مقصد کالجوں کے نادار طلباء و طالبات کی اپنی تعلیم مکمل کرنے میں مدد کرنا اور انہیں حساس نوجوانوں کو بھرتی کرنے کے متلاشی انتہاپسندوں سے دور لے جانا ہے۔

وزیرِ اعظم عمران خان نے 4 نومبر کو ضرورت مند طلباء و طالبات کے لیے احساس انڈرگریجویٹ سکالرشپ پروگرام کا اعلان کیا۔ وظائف سے نوازے گئے طلباء و طالبات کو سالانہ 50،000 روپے (705 ڈالر) اور چار برس کے عرصے میں کُل 200،000 روپے (2،820 ڈالر) ملیں گے۔

جیو ٹی وی نے بتایا کہ پروگرام، جسے پاکستان میں شروع ہونے والا پہلا سب سے بڑا انڈرگریجویٹ سکالرشپ پروگرام بتایا گیا ہے، پہلے سال مستحق طلباء و طالبات کو سالانہ 50،000 وظائف اور چار برسوں میں 200،000 فراہم کرے گا۔

سماء ٹی وی نے بتایا کہ وزیرِ اعظم کی خصوصی معاون برائے سماجی تحفظ اور غربت کا خاتمہ، ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے تقریب میں کہا کہ جن پروگراموں میں وظائف دیئے جائیں گے ان میں شامل ہیں زراعت، فنون اور غیر سائنسی علوم، تجارتی تعلیم، انجینیئرنگ، طبی علوم، مادی سائنس نیز سماجی سائنسی علوم۔

انہوں نے مزید کہا کہ احساس سکالرشپ میں، ٹیوشن فیس کی مد میں جانے کے علاوہ، روزمرہ کے اخراجات پورے کرنے میں طلباء و طالبات کی مدد کرنے کے لیے مشاہرہ بھی شامل ہو گا۔

نشتر نے کہا، وظائف کا پچاس فیصد طالبات کو دیا جائے گا، جبکہ 2 فیصد وظائف معذور طلباء و طالبات کے لیے مخصوص ہوں گے۔

انتہاپسندوں کو شکست دینا

پشاور کے مقامی تعلیم دان محمد سلیم نے کہا کہ یہ پہل کاری ملک میں اعلیٰ تعلیم کو فروغ دینے اورانتہاپسندوں سے بچنے میں نوجوانوں کی مدد کرنےکی طرف ایک بڑا قدم ہے۔

انہوں نے کہا، "یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ زیادہ تر نوجوانوں کے انتہاپسندوں کے ساتھ شامل ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ان کے پاس سکولوں اور کالجوں میں جانے کے لیے پیسہ نہیں تھا اور انہیں دہشت گردوں کی جانب سے تخریبی کارروائیوں کے لیے استعمال کیا گیا۔"

سلیم نے کہا کہ سرکاری منصوبہ "طلباء و طالبات کو وظیفہ حاصل کرنے اور انتہاپسندوں کے ہاتھوں استعمال ہونے کی بجائے اپنی تعلیم جاری رکھنے کا موقع فراہم کرے گا۔"

انہوں نے مزید کہا کہ نوجوانوں کو شدت پسند بنانا ان عسکری گروہوں کا اصلی سہارا رہا ہے جو "لوگوں کو خوفزدہ کرنے کے اپنے ایجنڈوں کو آگے بڑھانے" کے خواہش مند ہیں۔

سلیم نے کہا، "خودکش بمباروں کی اکثریت ایسے نوجوان ہوتے ہیں جو سکول یا کالج چھوڑ چکے ہوتے ہیں۔ عسکری تنظیموں نے انہیں تربیت دی اور ان کی برین واشنگ کی۔ پہل کاری بہت حوصلہ افزاء ہے کیونکہ یہ نوجوانوں کے لیے ایک بہتر مستقبل کا وعدہ کرتی ہے۔"

پشاور کے مقامی دفاعی تجزیہ کار اور تعلیم دان خادم حسین نے کہا کہ وظائف کا منصوبہ انتہاپسندوں کے حساس نوجوانوں کو شدت پسند بنانے کے ہدف کو شکست دینے میں ایک اہم کردارادا کر سکتا ہے۔

انہوں نے کہا، "عسکریت پسند تنظیمیں ایسے نوجوانوں کو بھرتی کرنے میں بدنام ہیں جن کی برین واشنگ کی جاتی ہے اور انہیں ۔۔۔ خودکش دھماکوں اور بم حملوں کے ذریعے عوام الناس میں خوف پھیلانے کے لیے بھیجا جاتا ہے۔ یہ دہشت گردی کا خاتمہ کرنے اور ملک میں پائیدار امن کے لیے راہ ہموار کرنے کی حکومتی کوششوں میں اضافہ کرے گا۔"

حسین نے مزید کہا کہ دہشت گرد تنظیموں نے ہمیشہ نوجوانوں کی غربت، جہالت اور ناخواندگی کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے، اور ایسے وظائف سکول نہ جانے والے نوجوانوں کو تلاش کرنے اور انہیں پرتشدد سرگرمیوں کے لیے استعمال کرنے کی ان کی کوششوں کو ناکام بنائیں گے۔

انہوں نے کہا، "اگر نوجوانوں کو تعلیم اور ملازمتیں مل جائیں تو وہ دہشت گردوں میں شامل نہیں ہوں گے۔ لہٰذا، یہ دہشت گردی کے مستقل بنیادوں پر خاتمہ کرنے کی طرف ایک درست قدم ہے۔"

تعلیم کے خواب

یونیورسٹی آف پشاور میں جناح کالج برائے خواتین پر سالِ اول کی ایک طالبہ، شمیم اختر نے کہا کہ وہ اس پہل کاری کو سراہتی ہیں اور وظیفے کے لیے درخواست دیں گی۔

انہوں نے کہا، "میرے والدین اتنے غریب ہیں کہ میرے اخراجات پورے نہیں کر سکتے۔ میرے چچا میری تعلیم کے اخراجات برداشت کر رہے ہیں، مگر اب مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میں اپنے تعلیمی ریکارڈ کی وجہ سے میرٹ کی بنیاد پر وظیفہ حاصل کرنے کے قابل ہوں گی۔"

شمیم نے کہا کہ پروگرام ان کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی خواہش کو پورا کرے گا۔

اسلامیہ یونیورسٹی کالج پشاور میں ایک انڈرگریجویٹ طالب علم، محمد رفیق نے بھی کہا کہ وہ وظائف کے منصوبے کے متعلق بہت پرجوش ہیں۔

انہوں نے کہا، "یہ مجھے اور دیگر طلباء کو اپنی تعلیم مزید آسانی سے پوری کرنے کے قابل بنائے گا۔ ابھی تک، میرے کالج کے اخراجات پورے کرنے کے لیے میرے والد نے رشتہ داروں سے قرض لیا ہے۔ ہمارا علاقہ دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں سے ایک ہے اور نوجوانوں کو تعلیم حاصل کرنے کے لیے امداد کی سخت ضرورت ہے۔"

رفیق، جن کا تعلق ضلع شمالی وزیرستان سے ہے، نے کہا کہ وظیفے کی رقم کافی زیادہ ہے اور یہ کہ یہ وظیفہ وصول کرنے والوں کو ناصرف ان کی ٹیوشن فیس کی ادائیگی کرنے میں بلکہ ان کی روزمرہ کی ضروریات کو پورا کرنے کے بھی قابل بنائے گا۔

یونیورسٹی آف پشاور کے ایک پروفیسر، احمد ولید، نے کہا کہ پروگرام ناصرف اچھی کارکردگی کے حامل طلباء و طالبات کا احاطہ کرتا ہے، بلکہ جسمانی طور پر معذور لوگوں کے لیے بھی ہے ۔۔ جو ایک اشارہ ہے کہ حکومت ملک کی ترقی کے لیے ایسی پالیسیوں پر یقین رکھتی ہے جس میں سبھی شامل ہوں۔

انہوں نے اتفاق کیا کہ پہل کاری نوجوانوں کو ان انتہاپسندوں کی جانب سے ممکنہ بھرتی سے دور لے جانے میں مدد دے گی جو حساس شہریوں کا شکار کرتے ہیں۔

ولید نے کہا، "پروگرام کا مقصد خواتین اور غریب آبادی کو مرکزی دھارے میں لانا ہے اور یہ ایک مضبوط قوم پر منتج ہو گا جسے دہشت گرد چیلنج نہیں کر سکیں گے۔"

وزیرِ اعظم عمران خان کی جانب سے میانوالی میں قائم کردہ ایک نجی یونیورسٹی، نمل کالج، اپنے 90 فیصد طلباء و طالبات کو مکمل یا جزوی وظائف فراہم کرتا رہا ہے، اور ولید کو توقع ہے کہ عمران سرکاری شعبے کے سکولوں اور کالجوں میں بھی وہی طریقۂ کار اختیار کریں گے۔

انہوں نے کہا، "ہمیں نوجوانوں کو ہنر سے آراستہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ ملازمتیں حاصل کریں اور اپنے خاندانوں کے معاشی حالات تبدیل کریں اور دہشت گردی کو شکست دیں۔"سرکاری وظائف کا مقصد حساس نوجوانوں کو امداد دینا، شدت پسندی کی بیخ کنی کرنا ہے

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500