معاشرہ

قانونی اصلاحات کے جزو کے طور پر کے پی نے تحفظِ اطفال کی دو مزید عدالتوں کا افتتاح کر دیا

از جاوید خان

پشاور میں تحفظِ اطفال عدالت 6 اکتوبر کو دکھائی گئی ہے۔ [تصویر بشکریہ جاوید خان]

پشاور میں تحفظِ اطفال عدالت 6 اکتوبر کو دکھائی گئی ہے۔ [تصویر بشکریہ جاوید خان]

پشاور -- پاکستان خطرے سے دوچار بچوں کے مزید تحفظ کے لیے کئی طرح کی قانونی اصلاحات کر رہا ہے، اور نئی تحفظِ اطفال عدالتوں (سی پی سیز) کا افتتاح کرنا اس کوشش کا ایک جزو ہے۔

گزشتہ ماہ، پشاور ہائی کورڈ (پی ایچ سی) کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ نے 5 اکتوبر کو مردان اور ایبٹ آباد میں دو نئی سی پی سیز کا افتتاح کیا تھا۔

اس نوعیت کی پہلی عدالتمارچ کے مہینے میں پشاور میں بنائی گئی تھی۔ پاکستان میں کے پی پہلا صوبہ ہے جس میں سی پی سیز بنی ہیں۔

جاری تشویش کے کچھ حصے کی بنیاد وہ انتہاپسند ہیں جو عظیم الشان حیات بعد الموت کے وعدوں سے لبھا کرغریب، نظرانداز کیے گئے بچوں کو خود کش بمبار بنا دیتے ہیں، نیز انہیں اس مقصد کے لیے اغواء بھی کرتے ہیں۔

بچوں کو ایک دوستانہ ماحول پیش کرنے کے لیے خصوصی عدالتوں کی رنگ برنگی دیواریں ہیں، تصاویر لگی ہوئی ہیں، کھلونے، کتابیں، صوفے اور کرسیاں رکھے ہوئے ہیں۔ عدالت کے باہر کھلے لان میں مزدوروں نے جھولے نصب کر دیئے ہیں۔

پشاور ہائی کورڈ کے رجسٹرار، خواجہ وجیہہ الدین نے 5 اکتوبر کو صحافیوں کو بتایا، "خصوصی تحفظِ اطفال عدالتیں نابالغوں کے نظامِ انصاف ایکٹ مجریہ 2018، کے پی تحفظ و بہبودِ اطفال ایکٹ مجریہ 2010 اور آئینِ پاکستان کے مطابق بچوں کے لیے فوری ور آسان انصاف فراہم کرنے کے لیے قائم کی گئی ہیں۔"

پشاور ہائی کورٹ نے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج فریال ضیاء کو مردان میں اور سید افتخار خان کو ایبٹ آباد میں سی پی سی کی سربراہی کرنے کے لیے تعینات کیا ہے۔

ایک مصروف عدالت

ان کا کہنا تھا کہ مارچ کے بعد سے، 243 بچے پشاور کی عدالت سے ہو کر گئے ہیں، جس نے 137 فوجداری مقدمات کی سماعت کی ہے۔ عدالت نے 77 بچوں کی ضمانت میں توسیع کی، نابالغوں پر تشدد کرنے والے 10 ملزمان کو سزا سنائی اور 16 نابالغ ملزموں کو بری کیا۔

انہوں نے کہا کہ حکام کے پی بھر میں "بڑی جیلوں میں قید تقریباً 64 نابالغوں کی حالت کی نگرانی کے لیے۔۔۔ باقاعدگی سے دورے کرتے ہیں۔"

وجیہہ الدین نے کہا، "عدلیہ پہلے مرحلے میں تمام ڈویژنل ہیڈکوارٹرز میں بچوں کے لیے خصوصی عدالتیں قائم کرنے کے لیے پُرعزم ہے، جبکہ اگلے مرحلے میں ایسی عدالتیں تمام اضلاع میں قائم کر دی جائیں گی۔"

حقوقِ اطفال کے لیے کام کرنے والے ایک کارکن عمران تکھر نے کہا، "گروپ ڈویلپمنٹ پاکستان کی جانب سے بارہ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججوں اور 12 سول ججوں کو حقوقِ اطفال اور بچوں کے ساتھ انصاف کرنے میں خصوصی تربیت فراہم کی گئی ہے،" ان کا مزید کہنا تھا کہ چار عدالتی اہلکاروں اور 16 وکلائے استغاثہ نے بھی تربیت حاصل کی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سی پی سیز کا بنیادی کردار تشدد، بدسلوکی، استحصال اور غفلت سے بچوں کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے۔

مردان میں افتتاح کے بعد، گروپ ڈویلپمنٹ پاکستان کی انتظامی ڈائریکٹر، اسلام آباد کی والیری خان نے کہا، "ناصرف نابالغوں کے نظامِ انصاف ایکٹ مجریہ 2018 بلکہ تحفظِ اطفال کے دیگر قوانین کے بھی اطلاق میں خیبرپختونخوا کی عدلیہ ملک بھر میں بہترین رہی ہے۔"

انہوں نے کہا کہ نابالغوں کی عدالتیں بچوں کو حراست اور ثانوی ظلموں سے دور رکھنے کے لیے تاریخی کوششیں کر رہی ہیں، جو کہ قومی اور بین الاقوامی قانونی فرائض سے ہم آہنگ ہیں۔

خان نے کہا، "جبکہ دیگر حصہ دار بشمول پولیس، بار ایسوسی ایشنز اور سرکاری محکمہ جات بچوں کے تحفظ کی کوشش میں شامل ہیں، حقوقِ اطفال کے اطلاق میں عدلیہ کا کردار ناگزیر رہا ہے۔"

ان کا مزید کہنا تھا کہ نیشنل جوڈیشل (پالیسی ساز) کمیٹی کے فیصلے کے مطابق ایسی عدالتیں دیگر صوبوں کے صوبائی ہیڈکوارٹرز میں بھی قائم کی جائیں گی۔

اسلام آباد کے مقامی حقوقِ اطفال کے ایک کارکن ارشد محمود نے کہا، "ہمیں تحفظِ اطفال کے ایک ایسے مؤثر نظام کی ضرورت ہے جس میں بچوں کے ساتھ بدسلوکی کو روکنے کے لیے قوانین، پالیسیاں، تربیت یافتہ فرائض انجام دینے والے،حصہ داروں کے درمیان ارتباط، ہمدرد برادریاں، بجٹ کی تفویض اور بچوں کی شرکت شامل ہو۔"

محمود نے کہا، "تدارک انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500