دہشتگردی

کے پی کے دکانداروں نے آپریشن ضربِ عضب کے دوران ہونے والے نقصانات کا معاوضہ ملنے کو سراہا

اشفاق یوسف زئی

یکم اکتوبر کو لی جانے والی اس تصویر میں شمالی وزیرستان میں تعمیر کیے جانے والے ایک نئے بازار کو دیکھا جا سکتا ہے۔ [کے پی ریلیف، ریہیبلیٹیشن اینڈ سیٹلمنٹ ڈپارٹمنٹ]

یکم اکتوبر کو لی جانے والی اس تصویر میں شمالی وزیرستان میں تعمیر کیے جانے والے ایک نئے بازار کو دیکھا جا سکتا ہے۔ [کے پی ریلیف، ریہیبلیٹیشن اینڈ سیٹلمنٹ ڈپارٹمنٹ]

پشاور -- شمالی وزیرستان ڈسٹرکٹ میں تاجران خیبر پختونخواہ (کے پی) حکومت کی طرف سے انہیں معاوضہ دیے جانے کی کوششوں کو سراہا رہے ہیں۔ ان کی دکانیں علاقے سے دہشت گردوں کا صفایا کرنے کے لیے 2014 میں شروع کی جانے والی عسکری مہم میں تباہ ہو گئی تھیں۔

ستمبر میں، کے پی کی حکومت نے ان تاجروں کو معاوضہ دینے اور ان دکانوں کی تعمیر کے لیے جو، آپریشن ضربِ عضب، جس کا آغاز پاکستانی فوج نے جون 2014 میں کیا تھا، کے دوران تباہ ہوئی تھیں،2.92 بلین روپوں (18.6 ڈالر) کی کل رقم کی منظوری دی تھی۔

اس امدادی منصوبے سے ان 342 مالکان کو فائدہ پہنچے گا جن کی میرانشاہ بازار میں دکانیں تباہ ہو گئی تھیں۔ ہردکان دار کو 300,000 روپے (1,915 ڈالر) ملیں گے۔

ڈان نے خبر دی ہے کہ معاوضے کی مجموعی رقم میں بازار میں دکانوں کو دوبارہ تعمیر کرنے کے لیے زمین حاصل کرنے کا خرچہ بھی شامل ہے۔

ہارون شاہ، جو 2014 میں اپنی دکان سے محروم ہو گئے تھے، نے کہا کہ "یہ بہت قابلِ تعریف بات ہے کہ حکومت نے ہمارے لیے امدادی پیکیج کی منظوری دے کر ان قربانیوں کو تسلیم کیا ہے جو ہم نے دہشت گردی کے خلاف دی ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ "یہ امن کو قائم رکھنے کے لیے ہمارے عزم کو مزید مستحکم کرے گا"۔

میرانشاہ کے 25 سالہ شہری، شاہ نے کہا کہ "اس معاوضے نے نہ صرف دکانوں کے مالکان کو خوش کیا ہے بلکہ اس سے شہریوں کو اپنے علاقے میں معیاری سامان ڈھونڈنے میں بھی مدد ملے گی"۔

پھلوں کے ایک تاجر، جاوید خان جو اس آپریشن میں اپنی دکان سے محروم ہونے کے بعد سے نزدیکی ڈسٹرکٹ بنوں میں سامان فروخت کر رہے ہیں، نے کہا کہ معاوضے کی پیشکش کے باعث، دکانوں کے مالکان کی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے کہ وہ اپنے کاروباروں کو دوبارہ شروع کریں۔

انہوں نے کہا کہ "اس سے ہمیں بہت زیادہ سکون ملا ہے کیونکہ اب ہم اسی جگہ پر اپنا کاروبار دوبارہ سے شروع کر سکیں ہے جہاں 2014 میں ہم رک گئے تھے۔ ہم وہاں پر اپنا کاروبار شروع کرنے کے لیے بے چین ہیں"۔

ڈان نے سرکاری ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کے پی ریلیف، ری ہبلیٹیشن اینڈ سیٹلمنٹ ڈپارٹمنٹ نے حال ہی میں، اس مالی سال کے دوران تیز عملدرآمد پروگرام کے تحت، شمالی وزیرستان ڈسٹرکٹ کے لیے معاوضے کی منظوری دی تھی۔

ایک اہلکار نے ڈان کو بتایا کہ "محکمہ خزانہ کی طرف سے رقم کو جاری کیے جانے کے بعد، متعلقہ ڈپٹی کمشنر معاوضے کی رقم کو متاثرہ لوگوں کے درمیان متعین طریقے سے تقسیم کرے گا"۔

بازار میں دکانوں کی تعمیرِ نو کا ماسٹر پلان دو مراحل پر مشتمل ہے۔ پہلے مرحلے میں، کارکنوں نے 42 پلازوں پر مشتمل بلاک بنائے ہیں جن میں کل 900 دکانیں ہیں۔

ڈان نے خبر دی ہے کہ کے پی کی خصوصی کابینہ کمیٹی، میرانشاہ اور میر علی بازار کے دکان داروں کو اس سامان کا معاوضہ بھی دینے کے لیے بات چیت کر رہی ہے، جو ضائع ہو گیا تھا اور اس کے ساتھ ہی تباہ ہونے والے پیٹرل پمپوں کا بھی۔ اس میں مزید کہا گیا ہے کہ منصوبے کی منظوری سے 8,000 سے زیادہ خاندانوں کو فائدہ پہنچے گا۔

کاروبار کو دوبارہ شروع کرنا

میرانشاہ بازار کے سیکریٹری نور جمال نے کہا کہ "امدادی منصوبے سے ہمیںمعاشی فروغ مل جائے گا اور دکاندار علاقے میں اپنے کاروبار دوبارہ قائم کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔ شہریوں کی اکثریت جو عسکریت پسندی کے باعث علاقہ چھوڑ گئی تھی اب واپس آ رہی ہے"۔

انہوں نے کہا کہ بہت سے مالکان جنہوں نے اپنے کاروبار دوسرے شہروں میں منتقل کر لیے تھے، ملٹری آپریشن کے بعد واپس آ جائیں گے اور اپنے آبائی علاقوں میں ان نئی دکانوں میں اپنے کاروبار دوبارہ سے شروع کریں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ "اپنے علاقے سے باہر رہتے ہوئے ۔۔۔ گھروں اور دکانوں کو کرایے پر لینے کے باعث ہمارا خرچہ بہت زیادہ تھا، مگر اپنے آبائی علاقے میں کاروبار کرنے کا مطلب ہو گا کہ ہم اپنے گھروں میں رہ رہے ہوں گے اور اپنی دکانوں میں کاروبار کریں گے جو کہ بہت بڑا فائدہ ہے"۔

پشاور سے تعلق رکھنے والے سیکورٹی کے تجزیہ نگار برگیڈیر (ریٹائرڈ) محمود شاہ نے کہا کہ معاوضہ کا منصوبہ درست قدم ہے اور یہ ٹھیک وقت پر کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ "اب جبکہ حکومت نے سابقہ فاٹا (وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقوں) کو کے پی سے ملا دیا ہے، تو تاجروں کی مدد کرنا، علاقے کو مرکزی دھارے میں لانے کے حصہ کے طور پر درست قدم ہے"۔

شاہ نے کہا کہ مقامی آبادی نے امن کے لیے بہت بڑی قربانیاں دی ہیں کیونکہ وہ سارے آپریشن کے دوران سکیورٹی فورسز کے ساتھ کھڑے رہے تاکہ علاقے کو انتہاپسند جنگجوؤں سے پاک کیا جا سکے اور اب وقت آ گیا ہے کہ ان کو ان کی قربانیوں کا معاوضہ دیا جائے"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500