جرم و انصاف

دہشتگردی کے لیے فراہمیٴ مالیات کی بلیک لسٹ سے بچنے کے لیے پاکستان نے کاوشیں تیز تر کر دیں

اشفاق یوسفزئی اور اے ایف پی

16 مئی کو ایک پاکستانی شخص کراچی میں اپنی دکان پر روپے گن رہا ہے۔ [آصف حسین/اے ایف پی]

16 مئی کو ایک پاکستانی شخص کراچی میں اپنی دکان پر روپے گن رہا ہے۔ [آصف حسین/اے ایف پی]

اسلام آباد – تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی عالمی بلیک لسٹ برائے غیر قانونی ترسیلِ زر و فراہمیٴ مالیاتِ دہشتگردی میں داخلے سے بچنے کے لیے انسدادِ بدعنوانی کے اس عالمی ادارے کے مجوزہ اقدامات کو مزید بھرپور طریقے سے نافذ کرنا ہوگا۔

اے ایف پی نے خبر دی کہ ایف اے اٹی ایف نے 18 اکتوبر کو تنبیہ کی کہاگر پاکستان چار ماہ کے اندر طریقہ تبدیل نہیں کرتاتو اسے ممالک کی ایک بلیک لسٹ میں شامل کیا جا سکتا ہے۔

ایف اے اٹی ایف کے صدر ژیانگ مِن لیو نے کہا، "پاکستان کی جانب سے ان کمزوریوں کو درست کرنے کے ایک اعلیٰ سطحی عہد کے باوجود، پاکستان نے خاطر خواہ پیش رفت نہیں کی۔" انہوں نے مزید کہا کہ ممکن ہے کہ فروری 2020 تک پاکستان کو اس بلیک لسٹ میں شامل کر دیا جائے۔

جب سے پاکستان نے 2018 میں ملک میں سرگرم دہشتگرد گروہوں کی جانب سے ترسیلِ زر کے لیے استعمال کیے جانے والے غیر قانونی طریقوں کی بیخ کنی کے لیے 27 اقدامات کی ایک "ایکشن لِسٹ" پر اتفاق کیا، پاکستان ایف اے اٹی ایف کی نام نہاد گرے لسٹ میں ہے۔

23 اکتوبر کو پشاور میں ایک کرنسی مارکیٹ کے سامنے ایک گاڑی کھڑی ہے۔ [اشفاق یوسفزئی]

23 اکتوبر کو پشاور میں ایک کرنسی مارکیٹ کے سامنے ایک گاڑی کھڑی ہے۔ [اشفاق یوسفزئی]

پاکستانی حکام نےعوامی سطح پر ایف اے اٹی ایف کی ایکشن لسٹ کے نفاذکا عہد کیا۔

ڈان نے خبر دی کہ وزیرِ اعظم عمران خان کے مشیرِ خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے 21 اکتوبر کو واشنگٹن میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا، "بنیادی طور پر تمام حکومتی ادارے اس امر سے متعلق ایک ہی صفحے پر ہیں۔ ہم ایسے فیصلے کریں گے کہ ہمیں غیر قانونی ترسیلِ زر اور دہشتگردی کے لیے فراہمیٴ مالیات کے خلاف لڑنے کی ضرورت ہے۔"

وزیرِ اعظم خان نے یکم دسمبر تک اس ایجنسی کی نقاضوں پر کام کرنے کے لیے ایک 12 رکنی ایف اے اٹی ایف معاونت کمیٹی تشکیل دی ہے۔

وفاقی وزیر برائے امورِ معاشیات حمّاد اظہر نے 22 اکتوبر کو اسلام آباد میں ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ ایف اے اٹی ایف کے ایکشن پلان کے جزُ کے طور پر گزشتہ چھ ماہ میں شروع ہونے والے دہشتگردی کے لیے فراہمیٴ مالیات کے 700 مبینہ مقدمات فیصلہ کے قریب ہیں۔

ڈان نے خبر دی کہ انہوں نے ایکشن لسٹ پر موجود تمام 27 اقدامات پر عملدرآمد کے لیے 2020 کا ہدف رکھا ہے۔

حمّاد نے کہا کہ دہشتگردی اور غیر قانونی ترسیلِ زر کے خدشات پر پاکستان کی پوزیشن بہتر ہوئی ہے، انہوں نے مزید کہا کہ حکومت نے ایک بین الایجنسی معاونت قائم کی ہے اور یہ کہ خدشہ پر مبنی ایک نگران بنیادی ڈھانچہ تشکیل دیا گیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ خدشہ کی مطابقت سے ایک تحقیقاتی حکمتِ عملی نفاذِ قانون کی ایجنسیوں کے لیے تیار ہے۔

انہوں نے کہا، "اب ان تمام اقدامات کے نفاذ کا وقت ہے۔"

معاونت میں بہتری

پشاور سے تعلق رکھنے والے ایک ماہرِ قانون نور عالم خان کے مطابق، پاکستان کی نفاذِ قانون کی ایجنسیاں خال ہی غیر قانونی ترسیلِ زر اور دہشتگردی کے لیے فراہمیٴ مالیات پر سزائیں دیتی ہیں۔

خان نے کہا کہ گزشتہ پانچ برسوں کے اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ انسدادِ منشیات فورس ( اے این ایف)، وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے)، فیڈرل بیورو آف ریوینیو (ایف بی آر) اور قومی احتساب بیورو (این اے بی) غیر قانونی ترسیلِ زر کے لیے ایک ہی مقدمہ میں سزا کو یقینی بنا سکے۔

درایں اثناء، گزشتہ پانچ برس میں دہشتگردی کے لیے فراہمیٴ مالیات کے 228 مقدمات میں سے صرف 58 ہی کے نتیجے میں سزائیں ہوئیں۔

ایف اے ٹی ایف کی جانب سے اکتوبر 2018 میں پاکستان کی جانچ کے مطابق، نفاذِ قانون کی ایجنسیاں دہشتگردی کے اقدامات اور دہشتگردی کے لیے فراہمیٴ مالیات میں تفریق نہیں کر سکتیں اور صوبائی سرحدوں کے طول و عرض میں دہشتگردی کے اقدامات کے لیے فراہمیٴ مالیات کی تحقیقات کرنے کے لیے کم ہی کوشش کرتی ہیں۔

2018 میں پنجاب کے محکمہٴ انسدادِ دہشتگردی (سی ٹی ڈی) نے بینک دولت پاکستان کے فنانشل مانیٹرنگ یونٹ (ایف ایم یو) سے کسی ٹرانزیکشن کے تجزیہ کے لیے 26 درخواستیں کی۔ سندھ سی ٹی ڈی نے ایسی ایک درخواست، جبکہ کے پی اور بلوچستان نے کوئی درخواست نہیں کی۔

ایف اے ٹی ایف کی رپورٹ میں کہا گیا کہ ایف ایم یو کی جانب سے تجزیہ کی گئی مشتبہ ٹرانزیکشن رپورٹس میں سے صرف 5.5 فیصد دہشتگری یا دہشتگردی کے لیے فراہمیٴ مالیات سے متعلقہ ہونے پر متعلقہ حکام کو ارسال کی گئیں۔ مقابلتاً 23 فیصد پر ٹیکس سے بچنے اور 9.5 فیصد پر بدعنوانی سے متعلق ہونے کا شبہ کیا گیا۔

انہوں نے کہا، "افراد اور تنظیموں کے خلاف ثبوت کی بنیاد پر گرفتاریاں کرنے کے لیے معاونت کے لیے صوبائی اور وفاقی سطح پر عملہ کی مسلسل تربیت کے ساتھ ساتھ تحقیقات کے سائنٹیفیک طریقوں کے ذریعے سزاؤں کی شرح بہتر ہو سکتی ہے۔"

خان نے مزید کہا کہ پاکستان عدالتی کاروائی کے بوسیدہ طریقے استعمال کر رہا ہے جس سے زیادہ سزائیں یقینی نہیں بنیں گی۔

پشاور کے ایک سابق پولیس افسر مراد خان نے کہا کہ دہشتگردی کے لیے فراہمیٴ مالیات کے خاتمہ میں موجود بڑی رکاوٹوں پر قابو پانے کے لیے پاکستان کو نفاذِ قانون اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے مابین معاونت درکار ہے۔

انہوں نے کہا، "دہشتگردی کی دو دہائیاں ثبوت ہیں کہ اس مسئلہ کی جڑیں گہری ہیں اور یہ کہ وفاق اور صوبوں کے مابین معاونت فرق پیدا کرسکتی ہے۔"

انہوں نے مزید کہا، "سابقہ قبائلی علاقہ جات میں عسکری مہمکے بعد مفرور شدت پسندوں کو پکڑنے کے لیے یہ ایک نہایت موزوں وقت ہے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500