احتجاج

جے یو آئی-ایف کا احتجاج تیز ہونے پر حکام نے انصارالاسلام پر پابندی عائد کر دی

اشفاق یوسفزئی

13 اکتوبر کو پشاور میں ایک تقریب کے دوران انصارالاسلام کے رضاکار ڈنڈے لہرا رہے ہیں۔ [شہزاد بٹ]

13 اکتوبر کو پشاور میں ایک تقریب کے دوران انصارالاسلام کے رضاکار ڈنڈے لہرا رہے ہیں۔ [شہزاد بٹ]

پشاور – پاکستانی حکام نے اس اختتامِ ہفتہ پر ایک احتجاج سے قبل جمعرات (24 اکتوبر) کوجمیعت علمائے اسلام (فضل) (جے یو آئی-ایف) جماعتکے ایک رضاکار گروہ کو کالعدم قرار دے دیا۔

وزارتِ داخلہ نے اس جماعت کے ڈنڈا بردار رضاکاروں کے ایک گروہ، انصار الاسلام کو کالعدم قرار دے دیا، جن کے ذمّے سیکیورٹی کی فراہمی اور نظم و ضبط کا قیام تھا۔

یہ اقدام اس وقت سامنے آیا جب جے یو آئی-ایف نے 27 اکتوبر سے اسلام آباد کی جانب ایک بڑے احتجاجی مارچ "آزادی مارچ" کا کہا، جس کا مقصد وزیرِ اعظم عمران خان کو مستعفی ہونے پر مجبور کرنا ہے۔

وزارتِ داخلہ نے کہا کہ یہ پابندی وفاقی حکومت کی منظوری اور چاروں صوبائی حکومتوں کی رضامندی سے آئی۔

13 اکتوبر کو پشاور میں انصارالاسلام کے رضاکار اسلام آباد میں ایک احتجاج کی تیاری میں دوڑ رہے ہیں۔ [شہزاد بٹ]

13 اکتوبر کو پشاور میں انصارالاسلام کے رضاکار اسلام آباد میں ایک احتجاج کی تیاری میں دوڑ رہے ہیں۔ [شہزاد بٹ]

13 اکتوبر کو پشاور میں ایک تقریب کے دوران انصارالاسلام کے رضاکار ڈنڈے لہرا رہے ہیں۔ [شہزاد بٹ]

13 اکتوبر کو پشاور میں ایک تقریب کے دوران انصارالاسلام کے رضاکار ڈنڈے لہرا رہے ہیں۔ [شہزاد بٹ]

وزارت نے کہا کہ یہ گروہ، ڈنڈوں، چھڑیوں اور تیزدھار اشیاء، بشمول خاردار تاروں میں لپٹی چھڑیوں سے مسلح کیا گیا ہے۔ انصارالاسلام اسلحہ و گولہ بارود سے بھی مسلح ہو سکتا ہے اور اس سے پاکستان، اسلام آباد اور دیگر صوبوں، کو خطرہ درپیش ہے۔

پشاور سے تعلق رکھنے والے ایک سیکیورٹی تجزیہ کار برگیڈیئر (ریٹائرڈ) محمود شاہ نے کہا کہ انصارالاسلام جے یو آئی-ایف سے منسلک رضاکاروں کی ایک پرانی تنظیم ہے، جو اس وقت نمایاں ہوئی جب اس کے ارکان نے 13 اکتوبر کو پشاور میں ایک پریڈ کے دوران چھڑیاں لہرائیں۔

’نجی ملشیا کے لیے کوئی گنجائش نہیں‘

انہوں نے کہا، "[انصارالاسلام] کو کالعدم قرار دینے کا اقدام درست ہے کیوں کہ قانون کے مطابق، نجی ملشیا کی کوئی گنجائش نہیں۔ پاکستان دہشتگردانہ تنظیموں کی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھنے سے متعلق شدید عالمی دباؤ میں ہے۔"

شاہ نے کہا کہ حکومتِ پاکستان کے پاس "اس امر پر یقین کرنے کے لیے کافی وجوہات تھیں کہ انصارالاسلام ایک عسکری تنظیم کے طور پر کام کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، جو آئین کے آرٹیکل 256 کی ۔۔۔ خلاف ورزی ہے۔"

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے ایک سینیئر صحافی صابر شاکر نے کہا کہ اس پابندی کا مصدر، آزادی مارچ کے مقامِ عروج، اسلام آباد کی مقامی آبادی کی جانب سے ظاہر کیے جانے والے خدشات ہیں۔

انہوں نے کہا، "پاکستان کسی نجی ملشیا کو باشندوں اور سفارت کاروں کی زندگیاں خطرے میں ڈالنے کی اجازت دینے کا متحمل نہیں ہے۔" انہوں نے مزید کہا کہ حکومت نے پرامن مارچ کی اجازت دے دی ہے۔

خیبر پختونخوا کے وزیرِ اطلاعات شوکت یوسفزئی نے کہا کہ انصار الاسلام کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

انہوں نے کہا، "حکومت عوام کے جان و مال کے تحفظ کی اپنی رِٹ کو یقینی بنائے گی۔"

یوسفزئی نے کہا کہ اس جماعت کو ایک جمہوری طریق پر اپنا احتجاج منعقد کرنے کا ہر طرح سے حق حاصل ہے، لیکن 13 اکتوبر کو انصارالاسلام کی جانب سے پشاور میں کی جانے والی پریڈ واضح طور پر، عسکریت پسند گروہوں کو روکنے کے مقصد سے بنائی گئی پالیسی، قومی ایکشن پلان کی خلاف ورزی ہے۔

انہوں نے کہا، "عسکریت پسند تنظیموں اور افراد کے خلاف ہمارے پیغام کو بین الاقوامی سطح پر اعتراف حاصل ہوا ہے، اور ہم ملک کی ساکھ کو مزید بہتر بنانا چاہتے ہیں۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500