کراچی -- کراچی کا ایک اسکول، جسے طالبان کے عسکریت پسندوں نے تین بار نشانہ بنایا تھا، چھہ سال تک بند رہنے کے بعد دوبارہ کھل گیا ہے تاکہ طلباء اور خصوصی طور پر لڑکیوں کو معیاری تعلیم فراہم کر سکے۔
اگست 2012 میں تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے عسکریت پسندوں نے، دو سماجی کارکنوں، عبدل وحید اور سید لطیف، جو کہ کٹی پہاڑی کے قریب اسلامیہ کالونی میں مخلوط اسکول اور پولیو کے قطرے پلانے کا مرکز چلا رہے تھے، کو دھمکیاں دی تھیں۔
دھمکیوں کے کچھ دنوں کے بعد، عسکریت پسندوں نے اسکول میں بم دھماکہ کیا جس سے لطیف زخمی ہو گئے۔ وہ عارضی طور پر اپنے آبائی علاقے تورگھر ڈسٹرکٹ، خیبر پختونخواہ میں منتقل ہو گئے۔
وحید نے مئی 2013 تک دھمکیوں کا مقابلہ کرنا جاری رکھا، جب وہ اسکول پر ہونے والے ایک اور حملے میں ہلاک ہو گئے۔ اس حملے میں ان کے چھوٹے بھائی اور ان کی بیٹی زخمی ہو گئے۔ قاتل فرار ہو گئے۔
وحید کی ہلاکت کے چار دن کے بعد جب انتظامیہ نے اسکول کو دوبارہ کھولنے کی کوشش کی تو عسکریت پسندوں نے اسکول میں ایک دستی بم پھینکا۔ اس واقعہ میں کوئی زخمی نہیں ہوا۔
لطیف جنہوں نے 15 اکتوبر کو اسکول کا دوبارہ افتتاح کیا کہا کہ "ہمیں سیکورٹی کی وجوہات پر اپنا اسکول بند کرنا پڑا۔ والدین اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے سے ہچکچا رہے تھے"۔
انہوں نے کہا کہ متشدد گروہوں، جس میں ٹی ٹی پی بھی شامل ہے، کو پکڑنے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کامیابی نے تعلیمی سرگرمیوں کو بحال کرنے کے لیے محفوظ ماحول مہیا کیا ہے۔
لطیف نے کہا کہ "اب کم آمدنی والے علاقوں میں والدین اپنے بچوں کو اسکول بھیج رہے ہیں"۔
حکام کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی کے حملے عسکریت پسندوں کی مخلوط اسکولوں اور پولیو کے قطرے پلانے سے موجود نفرت سے پیدا ہوئے تھے۔ لطیف اور قانون نافذ کرنے والے حکام کے مطابق، ٹی ٹی پی کراچی کا آپریشنل کمانڈر شیر خان ان متشدد کاروائیوں کا ذمہ دار تھا"۔
خان، اگست 2013 میں طالبان کے عسکریت پسندوں کے درمیان بھتے کی آمدنی پر ہونے والی اندرونی لڑائی میں ہلاک ہو گیا تھا اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں نے اس کے ساتھیوں کی اکثریت کو ہلاک اور گرفتار کر کے، اس کے گروہ کا خاتمہ کر دیا۔
تعلیم پر حملے
نونہال اکیڈمی کا کھلنا، معاشرے کی طرف سے طالبان جیسے گروہوں کے خلاف اس کی مزاحمت کو ظاہر کرتا ہے جو تعلیمی اداروں پر حملے کرتے ہیں اور طلباء اور اساتذہ کو ہلاک کرتے ہیں۔
یونیورسٹی آف میری لینڈ کے محققین کی طرف سے رکھے جانے والے گلوبل ٹیررازم ڈیٹا بیس کے مطابق، 2007 سے 2015 کے درمیان پاکستان میں تعلیمی اداروں پر 867 حملے کیے گئے جس کا نتیجہ 392 ہلاکتوں اور 724 افراد کے زخمی ہونے کی صورت میں نکلا۔ ان جرائم میں سے اکثریت طالبان نے کیے تھے۔
ان میں سے بدترین پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر چار دسمبر 2014 کو ہونے والا حملہ تھا جس میں 140 سے زیادہ اسکول کے بچے اور اساتذہ ہلاک ہو گئے تھے۔
کراچی سے تعلق رکھنے والے ماہرِ علم عالم زیب حلیم نے کہا کہ ملک بھر میں ٹی ٹی پی اور دوسرے عسکریت پسند گروہ، مختلف وجوہات کی بنیاد پر اسکولوں پر ناراض ہوتے ہیں۔
حلیم نے کہا کہ "کچھ بظاہر سیکولر یا مغربی نصاب ہونے کی وجہ سے اسکولوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ دوسرے اسکولوں کو صرف اس لیے دھمکیاں دی گئیں اور نشانہ بنایا گیا کیونکہ وہ لڑکیوں کو تعلیم دے رہے تھے"۔
انہوں نے کہا کہ "طالبان کے عسکریت پسند گروہ پاکستان،جس کی دنیا میں بدترین شرحِ خواندگی ہے،میں تعلیم کو بہتر بنانے کی کوششوں کو نشانہ بنانا چاہتے ہیں"۔
حلیم نے مزید کہا کہ "تعلیم پر حملے اور حملوں کی دھمکیاں نہ صرف طلباء اور ان کے اہلِ خاندان کو براہ راست نقصان پہنچاتی ہیں بلکہ ان کا پاکستان کے معاشرے پر طویل المعیاد بے حساب اثر بھی ہوتا ہے"۔
کوئی ’تعلیم دشمنوں‘ کے لیے کیا کر سکتا ہے جو اسلام کے بنیادی جزُ، نسلوں کو "تعلیم دینے یا علم منتقل کرنے" کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔ بچوں کو تعلیم یافتہ ہونے سے روکنا اور انہیں قتل کرنا ایک گناہِ کبیرہ ہے۔ اس کے مرتکبین کو سزائے موت دی جانی چاہیئے۔
جوابتبصرے 1