صحت

پاکستانی والدین نے پولیو ویکسین مخالف متعصب بیانیہ مسترد کر دیا

از اشفاق یوسفزئی

محکمۂ صحت کا ایک اہلکار 31 اگست کو ضلع بنوں میں ایک بچے کو پولیو کے قطرے پلاتے ہوئے۔ محکمے نے اس سال ابھی تک پاکستان میں کیسز کی بلند ترین تعداد ریکارڈ کی ہے۔ [کے پی حکومت]

محکمۂ صحت کا ایک اہلکار 31 اگست کو ضلع بنوں میں ایک بچے کو پولیو کے قطرے پلاتے ہوئے۔ محکمے نے اس سال ابھی تک پاکستان میں کیسز کی بلند ترین تعداد ریکارڈ کی ہے۔ [کے پی حکومت]

پشاور -- والدین عسکریت پسندوں اور خوف پھیلانے والوں کی جانب سے ان دعووں کو مسترد کر رہے ہیں کہ پولیو ویکسین بچوں کے لیے غیرمحفوظ ہے، کیونکہ اس موسمِ گرما میں ہزاروں مزید بچوں کو پولیو کے قطرے پلائے گئے تھے۔

خیبرپختونخوا (کے پی) میں مشوخیل گاؤں سے تعلق رکھنے والے سبزی فروش، محمد شکور نے کہا، "مجھے اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے نہ پلوانے کے اپنے سابقہ فیصلے پر افسوس ہے کیونکہ مجھے یہ تاثر ملا تھا کہ یہ ہماری آبادی کو کم کرنے کے لیے غیر مسلم ممالک کی طرف سے اختیار کیا جانے والا ایک حربہ ہے۔"

مشوخیل ویکسینیشن مخالف افواہ کا مرکز تھاجس سے اپریل کے مہینے میں عوام میں سراسیمگی پھیل گئی تھی، جب ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں پولیو کے قطرے (او پی وی) پینے کے بعد بچوں کو بیمار پڑتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔

حکام نے اس ویڈیو کا ڈرامہ فلمانے کے الزام میں کم از کم ایک شخص کو گرفتار کر لیا تھا۔

ڈاکٹروں نے 25،000 سے زائد بچوں کا معائنہ کیا اور نتیجہ اخذ کیا کہ کسی بچے پر بھی ویکسین کے مضر اثرات مرتب نہیں ہوئے تھے۔

اس واقعہ کے بعد، حکومت نے آن لائن اور بصورتِ دیگر طالبان اور ویکسین مخالف لوگوں کی جانب سے پھیلائی جانے والی غلط معلوماتکا بھانڈا پھوڑنے کے لیے پولیو ویکسین کی حفاظت اور تاثیر کے متعلق عوامی آگاہی کی مہمات میں اضافہ کر دیا تھا۔

شکور نے کہا، "اب مجھے سمجھ آ گئی ہے کہ پولیو کے قطرے ہمارے بچوں کو معذوریوں سے بچانے کے لیے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔"

بڑھتی ہوئی آگاہی

اسی علاقے سے ایک اسکول کے استاد، رفیق احمد نے ویکسین مخالف پراپیگنڈے کو مسترد کر دیا اور 26 اگست کو شروع ہونے والی ویکسینیشن کی مہم کے دوران اپنے چاروں بچوں کو پولیو کے قطرے پلوانے کے لیے لے کر آیا۔

اس مہم میں کے پی کے 29 اضلاع میں 6 ملین بچوں کو پولیو کے قطرے پلائے گئے۔

اس نے کہا، "اس واقعہ کے بعد لوگوں کو آگاہی ہو گئی تھی جس میں بچوں سے کہا گیا تھا کہ بیمار ہونے کا جھوٹا ڈرامہ کریں اور ہسپتالوں میں پہنچ جائیں۔ اب کوئی ابہام نہیں ہے کہ ویکسینیشن کا مقصد بچوں کی حفاظت کرنا ہے۔"

انہوں نے کہا، "ہمارے امام صاحبان ہمیں بتاتے رہے ہیں کہ ہمارے بچوں کی ویکسینیشن کو یقینی بنانا ہمارا دینی فریضہ ہے، ناصرف پولیو کے خلاف بلکہ بچپن کی تمام بیماریوں کے خلاف۔"

کے پی ڈائریکٹر آف ایکسپینڈڈ پروگرام آن امیونائزیشن محمد سلیم کے مطابق، آگاہی مہمات کے نتائج نظر آ رہے ہیں۔

انہوں نے کہا، "ہم بچوں کو قطرے پلوانے سے انکار کے واقعات جو کہ اپریل میں 800،000 تھے انہیں اگست میں کم کر کے 200،000 تک لے آئے ہیں، جو ایک واضح اشارہ ہے کہ والدین نے ویکسین مخالف پراپیگنڈے کو مسترد کرنا شروع کر دیا ہے۔"

سلیم نے کہا کہ آگاہی کے پروگراموں کے جزو کے طور پر، حکام نے دینی زعماء اور سماجی اراکین کے ساتھ مباحثوں کا انعقاد کیا، محکمۂ صحت کے اہلکاروں نے ابلاغی تربیت حاصل کی اور عوامی مغالطوں کو دور کرنے میں ذرائع ابلاغ شامل تھے۔

انہوں نے کہا، "انکار کے مسئلے کے حل کے لیے ہماری حکمتِ عملی مکمل طور پر تبدیل ہو گئی ہے، جس کا نتیجہ نکل رہا ہے۔"

"ہمیں امید ہے کہ مزید والدین ویکسین مخالف پراپیگنڈے کو مسترد کریں گے اور نومبر کے لیے طے شدہ اگلی مہم میں اپنے بچوں کو قطرے پلوانے کے لیے راضی ہوں گے۔"

پولیو کا خاتمہ

صرف پاکستان اور افغانستان ہی وہ ممالک رہ گئے ہیں جہاں پولیو ایک متعدی مرض ہے۔

کے پی ڈائریکٹر جنرل آف ہیلتھ سروسز ارشاد احمد خان کے مطابق، سنہ 2019 میں پاکستان میں ابھی تک ریکارڈ ہونے والے 72 کیسز میں سے، کے پی میں 53، سندھ میں آٹھ، بلوچستان میں چھ اور پنجاب میں پانچ ہیں۔ افغانستان میں اس سال 16 کیسز ریکارڈ ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جن بچوں کو پولیو ہوا ہے ان میں سے 90 فیصد سے زائد ویکسینیشن مخالف پراپیگنڈہ یا طالبان جنگجوؤں کے خوف کی وجہ سے ویکسینیشن سے محروم رہے تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ طالبان جنگجوؤں نے سنہ 2012 کے بعدس سے پولیو سے متعلقہ واقعات میں 70 محکمۂ صحت کے اہلکاروں اور پولیس افسران کا ہلاک کیا ہے۔

ضلع بنوں میں پولیو کے قطرے پلوانے والی، ریاست بی بی نے کہا کہ وہ جنگجوؤں کی دھمکیوں سے متزلزل نہیں ہوئیں اور اپنے علاقے میں تمام بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے کے لیے کام کرنا جاری رکھیں گی۔

انہوں نے کہا، "ہم اپنے بچوں کو دہشت گردوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتے جو بچوں کی صحت کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔"

انہوں نے کہا کہ پولیس کی جانب سے کیے جانے والے وسیع حفاظتی انتظامات ویکسینیشن کی مہمات کی کامیابی میں ایک بڑی حوصلہ افزائی رہے ہیں۔ "پولیس سے ان کے خوف کی وجہ سے، دہشت گرد ہمارے اہلکاروں کو مارنے کی جرأت نہیں کرتے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500