معیشت

تجارتی معاہدے پر نظرِ ثانی کے ساتھ پاکستانی، افغان کاروباری اداروں کی نظریں بہتر مستقبل پر

از محمد شکیل

سنہ 2019 میں عبوری اشیاء سے لدے ٹرک ضلع خیبر میں طورخم روڈ پر افغانستان کی طرف جا رہے ہیں۔ دونوں اطراف کے تاجر اور کاروباری حضرات ایپٹا پر نظرِثانی کے لیے پاکستان اور افغانستان کے درمیان ایک معاہدے کے بعد عبوری تجارت کی بہتری کی توقع کر رہے ہیں۔ [محمد شکیل]

سنہ 2019 میں عبوری اشیاء سے لدے ٹرک ضلع خیبر میں طورخم روڈ پر افغانستان کی طرف جا رہے ہیں۔ دونوں اطراف کے تاجر اور کاروباری حضرات ایپٹا پر نظرِثانی کے لیے پاکستان اور افغانستان کے درمیان ایک معاہدے کے بعد عبوری تجارت کی بہتری کی توقع کر رہے ہیں۔ [محمد شکیل]

پشاور -- کاروباری حکام کا کہنا ہے کہ افغانستان اور پاکستان عبوری تجارتی معاہدے (ایپٹا) پر منصوبہ بندی کردہ نظرِثانی کو دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان تجارت کو تقویت دینی چاہیئے۔

معاہدہ، جو پہلی بار سنہ 2010 میں طے پایا تھا، کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان اشیاء کی نقل و حمل میں سہولت کاری کرنا تھا مگر اسے اطلاق کے مسائل کا سامنا تھا۔

دریں اثناء، افغانستان کی بھارت تک اور پاکستان کی تاجکستان تک رسائی کے معاملے پر ستمبر 2015 سے اس معاہدے پر نظرِثانی التوا کا شکار تھی۔

دونوں اطراف نے 28-27 جون کو اسلام آباد میں منعقد ہونے والے افغانستان اور پاکستان کے درمیان اقتصادی تعاون پر تکنیکی اجلاس کی دو روزہ نشست کے دوران ایپٹا پر نظرِثانی کرنے پر اتفاق کیا، اور اس کے بعد سے نظرِثانی کا مسودہ تیار کرنے پر کام کر رہی ہیں۔

سنہ 2019 میں ٹرک عبوری اشیاء افغانستان لے جاتے ہوئے۔ [محمد شکیل]

سنہ 2019 میں ٹرک عبوری اشیاء افغانستان لے جاتے ہوئے۔ [محمد شکیل]

سرحد ایوانِ صنعت و تجارت (ایس سی سی آئی) کے سابق صدر، زاہد اللہ شینواری نے کہا، "مشترکہ مسائل پر توجہ دینے کے لیے ایپٹا پر نظرِثانی کرنا اور اسے عبوری تجارت کی ضروریات کے موافق بنانا پاکستانی اور افغان تاجر برادریوں کا طویل عرصے سے ایک مطالبہ تھا۔طورخم بارڈر کراسنگ کو چوبیس گھنٹے کھولنااور ایک زیادہ نتیجہ خیز ایپٹا پاک افغان عبوری تجارت پر ایک معاون اثر پیدا کریں گے، جو کہ حال ہی میں کم ہو گئی تھی۔"

ان کا مزید کہنا تھا، "معاہدہ سنہ 2010 میں طے پایا تھا اور سنہ 2015 میں اس پر نظرِثانی کی جانی تھی، مگر کچھ عوامل نے پورے عمل کو متاثر کیا، جس سے پاک افغان عبوری تجارت کو نقصان پہنچا۔"

شینواری نے مزید کہا، "نئی شقیں متعارف کروانا -- حصہ داروں کے تحفظات کو سامنے رکھتے ہوئے -- وقت کی ضرورت تھی کیونکہ وہ تاجروں کے معاشی حالات سے براہِ راست متاثر ہوں گی اور دونوں ممالک کے لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب تر لائیں گی۔"

انہوں نے کہا، "ایپٹا پر نظرِثانی ہونے کے بعد، پاکستانی تاجر اپنی اشیاء کے لیے افغان منڈی کو کھوجنے اور ان شعبوں کی شناخت کرنے کی بہتر حالت میں ہوں گے جہاں صلاحیت کو ابھی دریافت نہیں کیا گیا ہے۔"

رکاوٹیں دور کرنا

شینواری کے مطابق پاکستانی اشیاء کے لیے افغانستان کی سالانہ منڈی کی قدر اس وقت 5 بلین ڈالر سے 8 بلین ڈالر ہے، جبکہ معاہدے سے قبل افغانستان کو سالانہ پاکستانی برآمدات تقریباً 2.5 بلین ڈالر تھیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان کو سالانہ پاکستانی برآمدات سرحد کی بندش اور کنٹینر کے حراستی اخراجات جیسی رکاوٹوں کی وجہ سے کم ہو کر 2.5 بلین ڈالر ہو گئی تھیں۔

شینواری نے کہا، "معاہدے پر نظرِثانیان رکاوٹوں کو شناخت کرنے اور ہٹانے کے علاوہ برآمدی اہداف حاصل کرنےمیں مدد دیں گی جو پاک افغان عبوری تجارت کے لیے نقصان دہ ہیں۔"

ایک تاجر اور پاکستان-افغانستان مشترکہ ایوانِ صنعت و تجارت (پی اے جے سی سی آئی) کے افغان رکن، احمد شاہ نے اتفاق کیا کہ نظرِثانی شدہ معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان تجارت کو فروغ دے گا۔

انہوں نے کہا، "ہمیں توقع ہے کہ پاکستان اور افغانستان کا سنہ 2010 کے عبوری تجارتی معاہدے پر نظرِثانی کرنے کا معاہدہ دونوں اطراف کے تاجروں کے مسائل کو حل کرنے میں ایک سنگِ میل ہو گا۔"

شاہ نے کہا، "[سنہ 2010 کے معاہدے میں] مخصوص خامیوں اور نقائص کی وجہ سے عبوری تجارت کے ساتھ منسلک کاروباری اداروں کے مسائل میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوا، جیسے کہ اشیاء کی نقل و حمل کے لیے مخصوص اداروں کو استعمال کرنے کا تقاضہ کرنا۔"

'اعتماد کی فضاء'

شاہ نے کہا، "تجارت اور کاروبار سے سیاست کو علیحدہ کرنا بھی ایک عامل ہے جو دونوں ممالک کے عوام کو قریب تر لانے کی ہماری کوششوں کو ایک سمت دینے میں مدد دے گا۔"

انہوں نے مزید کہا، "مزید برآں، مشترکہ فورمز پر لیے گئے فیصلوں کا اطلاق بھی تجارت میں اضافہ کرنے اور مستقبل میں ایسے اجلاس منعقد کرنے کے لیے حصہ داروں کے لیے اعتماد کی فضاء قائم کرنے کے لیے ضروری ہے۔"

پی اے جے سی سی آئی کے سابق سینیئر نائب صدر، ضیاء الحق سرحدی نے نظرِثانی شدہ معاہدے کو دونوں اطراف کے لیے "حوصلہ افزاء" قرار دیا۔

انہوں نے کہا، "برآمدات اور درآمدات کرنے والے حضرات کو حالیہ برسوں میں ایک غیر یقینی صورتحال کا سامنا تھا جو دونوں ممالک کے درمیان ایپٹا کی دوبارہ تخمینہ کاری اور تجزیہ کرنے میں ڈیڈلاک کے بعد پیدا ہوئی تھی۔ پاک افغان عبوری تجارت کے باہمی مسائل کو حل کرنے کے لیے اتفاقِ رائے پیدا کرنا دونوں ممالک کی جانب سے ایک اظہار ہے جو کہ حوصلہ افزاء ہے اور آنے والے دنوں میں بہتر کاروباری منظرنامے کی امید کی کرن ہے۔"

انہوں نے کہا کہ مزید برآں، نئی پیش رفت 5،000 سے زائد کلیئرنگ ایجنٹوں اور ٹرانسپورٹرز کے لیے ملازمیں فراہم کرے گی۔

کابل کے مقامی ایک افغان کاروباری، حاجی زلمے نے کہا، "ایپٹا پر نظرِثانی کرنے کے لیے پاکستان اور افغانستان دونوں کے اتفاقِ رائے سے دونوں ممالک کے تاجروں اور کاروباری حضرات کو فائدہ ہو گا۔"

انہوں نے کہا، "2010 کے ایپٹا پر مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کے معاہدے نے تاجروں کو ایک موافق ماحول کے بارے میں امید دلائی ہے جہاں حکام مشترکہ مسائل کو بہتر طریقے سے حل کرنے کے قابل ہوں گے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

ہر وہ قدم اٹھائے جانے کا سزاوار ہے جو افغانستان اور پاکستان کے مابین دوستانہ تعلقات استوار کرنے میں مددگار ہو۔

جواب