اسلام آباد -- حکام نے کہا ہے کہ پولیس نے چونیاں، صوبہ پنجاب میں چار لڑکوں کے ساتھ بدفعلی اور بعد ازاں قتل کے الزامات کے ساتھ تعلق پر ایک مشتبہ سیریل کلر کو گرفتار کر لیا ہے۔
بچوں میں سے پہلے بچے -- محمد عمران، محمد فیضان، علی حسنین اور محمد سلمان -- جون میں لاپتہ ہوئے تھے۔ ان کی لاشیں گزشتہ ماہ ضلع قصور میں چونیاں کے ارد گرد ملنا شروع ہوئی تھیں۔
پولیس نے کہا کہ متاثرین، جن سب کی عمریں 8 اور 12 سال کے درمیان تھیں، بدفعلی کے بعد گلا گھونٹ کر ہلاک کیے گئے تھے۔
وزیرِ اعلیٰ پنجاب، سردار عثمان بزدار نے منگل (1 اکتوبر) کے روز صحافیوں کو بتایا کہ پولیس نے 27 سالہ سہیل شہزاد کو بچوں پر ملنے والے ڈی این اے کے نمونے میچ ہونے کے بعد گرفتار کیا ہے۔
دہشت گردی کے قانون کے تحت مقدمہ چلے گا
بزدار نے کہا کہ سہیل شہزاد پر بچوں کے اغواء، بدفعلی اور قتل کے الزامات کے ساتھ تعلق ہونے پر انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ چلایا جائے گا۔
ریجنل پولیس افسر (آر پی او) شیخوپورہ سہیل حبیب تاجک نے کہا، "ایک وسیع تفتیش کے دوران پولیس نے 26،251 افراد سے پوچھ گچھ کی، 4،684 گھروں کی تلاشی لی اور ڈی این اے کے 1،734 نمونے جمع کیے۔"
انہوں نے مزید کہا کہ پولیس نے 904 ڈرائیوروں کے کوائف کی چھان بین کی، 8،307 فونز کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا اور 3،117 مشتبہ افراد سے تفتیش کی۔
تاجک نے کہا، "یہ وہ کوششیں ہیں جو پولیس نے ۔۔۔ مجرم کو گرفتار کرنے ۔۔۔ کے لیے کی ہیں۔"
سہیل شہزاد کو سنہ 2011 میں ایک بچے کے ساتھ بدفعلی کرنے کے جرم میں گرفتار کیا گیا تھا اور جیل بھیج دیا گیا تھا۔ اس وقت، وہ بطور ایک آٹو رکشہ ڈرائیور کام کرتا تھا۔ جیل سے رہا ہونے کے بعد، اس نے ایک تندور پر کام کرنا شروع کر دیا۔
وہ بہتریاں جوجرائم اور دہشت گردی کی فارنزک تحقیقاتمیں کی گئی ہیں، نے ایسی گرفتاریوں کو ممکن بنایا ہے۔
قاتلوں، بچوں کے ساتھ زیادتی کو روکنا
پاکستانیوں نے ایسے واقعات کے دوبارہ رونما ہونے کو روکنے کے لیے سخت قوانین کے نفاذ کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے، جبکہ پاکستان میں بچوں کے تحفظ کے قوانین موجود ہیں،معاشرے اور خاندانوں میں آگاہی بڑھانے کے لیے مزید کوششیں کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مظلوموں کو انصاف ملے۔
بہت سے مبصرین کا کہنا ہے کہ بدسلوکی اور نظرانداز کیے جانے والے بچوں میں، برے سلوک کے دیگر ممکنہ منفی نتائج کے علاوہ،انتہاپسند گروہوں اور پرتشدد مجرم گروہوں کی جانب سے بھرتی کیے جانے کا زیادہ احتمالہوتا ہے۔
پاکستان میں عسکریت پسندوں نےنظرانداز کیے گئے بچوں کو خودکش بمبار بننے کی تربیت دی ہے۔
پشاور کے مقامی حقوقِ اطفال کے کارکن ارشد محمود نے کہا، "ہمیں اپنے بچوں کے تحفظ کے لیے اور معاشرے میں بچوں کے ساتھ بدسلوکی کو روکنے کے لیے متحد ہونے کی ضرورت ہے۔"
انہوں نے کہا کہ بچوں کو ایسے درندوں سے محفوظ رکھنے میں حکومت، بچوں، والدین اور معاشرے کے ہر حصے کو کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔
پشاور سے تعلق رکھنے والے ایک نجی اسکول کے استاد، ظفر اللہ نے کہا، "ایسے جرائم پر لازماً سخت قوانین ہوں ۔۔۔ تاکہ کسی کو بھی کسی بچے کو چھونے کی ہمت نہ ہو۔"
انہوں نے کہا، "معاشرے میں صرف انصاف ہی ایسے جرائم کو روک سکتا ہے اور معاشرے کو عسکریت پسندی اور دہشت گردی جیسی برائیوں سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔"
ہمارے معاشرے کو صاف کرنے اور ہمارے گھروں کی گلیوں اور پورے معاشرے کو اپنے بچوں کے لیے محفوظ اور پرامن بنانے کے لیے ان جنگلی بھیڑیوں کو سرعام بے دردی سے مار ڈالو۔ یہ واحد راستہ ہے۔
جوابتبصرے 2
Is ko sream phansi pr ltka diya jy
جوابتبصرے 2