مذہب

مدرسوں کو دہشتگردی سے لاتعلق کرنے کے لیے حکومت کی کاوشوں نے پذیرائی حاصل کی

ضیاء الرّحمٰن

اپریل میں مدرسوں کے طلباء جامیہ مخذالعلوم کراچی میں سالانہ امتحانات میں شریک ہیں۔ حکومت نے 29 اگست کو نئے ضوابط کے لیے مدرسوں کی تنظیمات کے ساتھ معاہدہ کیا۔ [ضیاء الرّحمٰن]

اپریل میں مدرسوں کے طلباء جامیہ مخذالعلوم کراچی میں سالانہ امتحانات میں شریک ہیں۔ حکومت نے 29 اگست کو نئے ضوابط کے لیے مدرسوں کی تنظیمات کے ساتھ معاہدہ کیا۔ [ضیاء الرّحمٰن]

کراچی – مدارس کو منضبط کرنے اور شدت پسندانہ نظریہ کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے حکومتِ پاکستان اور اتحادِ تنظیماتِ مدارس پاکستان (ITMP) کے مابین معاہدے پر دستخط کیے جانے کو ملک بھر میں حکام سے پذیرائی حاصل ہو رہی ہے۔

حکومت نے 29 اگست کو ملک میں پانچ مکاتبِ فکر کی نمائندگی کرنے والی ایک تنظیم ITMP کے ساتھ ایک معاہدہ کیا۔

وفاقی وزیر برائے تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت شفقت محمود اور ITMP کے رہنماؤں نے مذہبی سکولوں کو اپنے زیرِ انتظام لانے،دینی تعلیم کی تنظیمِ نو کرنے، ان کے نصاب میں جدید مضامین شامل کرنے اور ان کے مالیات کو شفاف بنانےکے لیے معاہدہ پر دستخط کیے۔

متواتر پاکستانی حکومتوں – سولین اور عسکری، ہر دو—نے ماضی میں مدرسوں کو منضبط کرنے کی کوشش کی، لیکن یہ کوششیں کامیاب نہ ہو سکیں، جس کی بنیادی وجہ ان اسلام پسند گروہوں کی جانب سے دباؤ تھا جو ان اصلاحات پر ایک اسلام مخالف مغربی منصوبے کے طور پر حملہ آور ہوتے تھے۔

اگست میں کراچی کے علاقہ میں نیم فوجی رینجرز گشت کر رہے ہیں۔ ملک گیر کریک ڈاؤن میں عسکریت پسند گروہوں کو کمزور کرنے کے بعد، حکومت نے دینی سکولوں کو منضبط کرنے کے لیے مدرسوں کی نگران تنظیم کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ [ضیاءالرّحمٰن]

اگست میں کراچی کے علاقہ میں نیم فوجی رینجرز گشت کر رہے ہیں۔ ملک گیر کریک ڈاؤن میں عسکریت پسند گروہوں کو کمزور کرنے کے بعد، حکومت نے دینی سکولوں کو منضبط کرنے کے لیے مدرسوں کی نگران تنظیم کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ [ضیاءالرّحمٰن]

پاکستان میں 30,000 کے قریب دینی سکول یا مدرسے ہیں، جن میں قرآن حفظ کرنے سے عربی ادب اور شریعتِ اسلامی میں مہارت حاصل کرنے والوں تک 3 ملین سے زائد طلباء مندرج ہیں۔

’ایک بڑی کامیابی‘

مدرسوں کا اندراج اور ان کا انضباط طالبان عسکریت پسندوں کے ہاتھوں پشاور میں 150 سے زائد سکول کے بچوں قتل کے بعد جنوری 2015 میں حکومت کی جانب سے اپنائی گئی انسدادِ دہشتگردی کی پالیسی، قومی ایکشن پلان (NAP) کے 20 مقاصد میں سے ایک ہے۔

صوبائی حکومتوں نے نگرانی کے مقاصد سے درست مقام کے تعین میں نفاذِ قانون کی ایجنسیوں کی مدد کے لیے بیشتر مدرسوں کی جیو ٹیگنگ (مقام اور ہجم سے متعلق تفصیلات کا ذخیرہ) مکمل کر لی ہے۔

محمود نے کہا کہ ITMP رہنماؤں کے ساتھ متعدد ملاقاتوں کے بعد، مدرسوں کے انتظام اور مذہبی عدم رواداری کے پھیلاؤ کو روکنے پر ایک اتفاقِ رائے ہو گیا۔

محمود نے کہا، "یہ حالیہ حکومت کی ایک شاندار کامیابی ہے۔"

تجزیہ کار بھی حکومت کی کاوشوں کی پذیرائی کرتے ہیں۔

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے ایک خودمختار وکالتی گروہ، بین الاقوامی تحقیقاتی کاؤنسل برائے مذہبی امور (IRCRA) کے سربراہ، ڈاکٹر محمّد اسرار مدنی نے کہا، "حکومت اور مدرسوں کی تنظیم، ہر دو نے مدرسوں کو منضبط کرنے کی ایک حکمتِ عملی وضع کرنے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کیا۔"

انہوں نے کہا کہ اس مرتبہ حکومت نے فرقہ کی بنیادوں پر مدرسوں کے جداگانہ اندراج کے بجائے ایک یکساں پالیسی مرتب کی ہے جس سے مستقبل میں فرقہ ورانہ اختلافات کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔

مدرسوں کے رہنما بھی حکومتی کاوشوں سے مطمئن ہیں۔

پانچ میں سے ایک مدرسہ بورڈز وفاق المدارس العربیہ کے ایک ترجمان مولانا ابراہیم سکرگئی نے کہا، "یہ ہمارا ایک طویل المدت مطالبہ تھا کہ یہ ذمہ داری وزارتِ تعلیم کو دی جائے۔"

انہوں نے کہا کہ ماضی میں متعدد وزارتیں اور حکومتی تنظیمیں – جیسا کہ تجارت کا انصرام کرنے والی، داخلہ اور مذہبی امور – نے مدرسوں کی نگرانی کی۔

مالیات کو شفاف بنایا جانا

اس معاہدہ کے تحت، ملک میں چلنے والے تمام مدرسوں کو وزارتِ تعلیم کے ساتھ مندرج ہونا لازم ہے۔ اگر کوئی انکار کرے، تو حکومت اسے بند کر دے گی اور اسے بینک کھاتہ کھولنے سے روک دے گی۔ وزارت حکومت کے ساتھ اندراج شدہ مدرسوں کی معاونت کے لیے ملک بھر میں 12 مراکز کھولے گی۔

حالیہ برسوں میں پاکستان نے غیر اندراج شدہ مدرسوں کے سینکڑوں بیک کھاتے منجمد کر کے غیر قانونی ترسیلِ زر اور دہشتگردی کے لیے فراہمیٴ مالیات کے خلاف اپنی کاوشوں کو مستحکم کیا ہے۔

بینک دولتِ پاکستان کے اس عمل سے آشنا، ایک اعلیٰ عہدیدار کے مطابق، NAP کے نفاذ کے بعد، ملک کے مرکزی بینک، بینک دولتِ پاکستان، نے مدرسوں کی مالیات کے ذرائع کا تعاقب رکھنا شروع کر دیا۔ انہوں نے اپنی شناخت پوشیدہ رکھے جانے کی درخواست کی کیوں کہ انہیں میڈیا سے بات کرنے کی اجازت نہیں۔

انہوں نے کہا کہ مرکزی بینک نے ان مدارس کے کھاتے معطل کر دیے جنہوں نے اپنی مالیات کے ذرائع ظاہر کرنے یا حکومت کی جانب سے متعارف کرائے گئے نئے مکانزم کے تحت اندراج کرانے سے انکار کیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ بینکوں کو یہ بھی تجویز کیا گیا کہ وہ اس وقت تک مدرسوں کے نئے کھاتے نہ کھولیں جب تک وہ حکومت کے ساتھ مندرج نہ ہو جائیں۔

دسمبر سے پاکستان میں چلنے والے بینکوں اور دیگر مالیاتی اداروں نے بائیومیٹرک کے ذریعے کھاتہ داروں کی شناخت کی تصیدق کا بھی آغاز کر دیا ہے۔

نیا نصاب

اس معاہدہ کے تحت مدرسوں نےاپنے نصاب میں جدید مضامین شامل کرنے پر بھی اتفاق کیا ہے۔

تعلیم کو کور کرنے والے کراچی اساسی ایک صحافی اشرف یوسفزئی نے کہا، "معاشرتی علوم اور عمومی تاریخ جیسے آزاد خیال مضامین نہ پڑھانے پر مدرسوں کو سخت تنقید کا سامنا رہتا تھا۔"

یوسفزئی نے کہا، "یہ مدرسوں میں زیرِ تعلیم طلباء پر اثر انداز ہو کر انہیں قدامت پسند، عدم روادار اور تکثیریت مخالف بنا رہا تھا۔"

وفاقی وزیر، محمود نے کہا کہ مدرسوں کے طلباء کو دیگر سکولوں کے طلباء کی طرح اب آٹھویں، دسویں اور بارہویں جماعتوں میں اسناد کے امتحانات دے کر اسناد حاصل کرنا ہوں گی۔

حکومت نے کہا ہے کہ اس معاہدہ کے تحت وہ پاکستانی مدرسوں میں تعلیم حاصل کرنے کے خواہشمند غیر ملکی طلباء کو ویزا حاصل کرنے میں مدد کرے گی۔ انہیں نو برس تک ملک میں تعلیم حاصل کرنے کی اجازت ہو گی۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

ان بچوں کو مولوی بن کر گزارشات پر ملازمتیں تلاش کرنے کے بجائے ڈاکٹر، انجنیئر، معلم، مکینک، سائنسدان اور بہت کچھ بننا چاہیئے۔

جواب