سلامتی

طالبان کی طرف سے مقامی افراد کو دھمکائے جانے کے بعد، سیکورٹی فورسز نے بونیر میں آپریشن شروع کر دیا

جاوید خان

یہ تصویر جو کہ 18 مئی 2018 کو لی گئی، میں ایک موٹرسائیکل سوار وادیِ سوات میں بونیر کے قریب، جنگلی علاقے سے گزر رہا ہے۔ ]فاروق نعیم /اے ایف پی[

یہ تصویر جو کہ 18 مئی 2018 کو لی گئی، میں ایک موٹرسائیکل سوار وادیِ سوات میں بونیر کے قریب، جنگلی علاقے سے گزر رہا ہے۔ ]فاروق نعیم /اے ایف پی[

پشاور -- پولیس اور دوسری سیکورٹی فورسز نے مالاکنڈ ڈویژن کی بونیر ڈسٹرکٹ میں، دہشت گردوں کی طرف سے حالیہ ہفتوں میں مقامی افراد کو دھمکی آمیز خط بھیجے جانے کے بعد، ایک آپریشن کا آغاز کیا ہے۔

دہشت گرد کسی زمانے میں مالاکنڈ ڈویژن کے بہت سے علاقوں کو کنٹرول کرتے تھے اور انہیں 2009 کے ملٹری آپریشن کے بعد علاقے سے نکال دیا گیا تھا۔

انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی پی) خیبرپختونخواہ (کے پی) محمد نعیم خان نے پیر (16 ستمبر) کو کہا کہ "آلام کے اونچے پہاڑی علاقوں میں پولیس اور فوج کا ایک مشترکہ آپریشن جاری ہے"۔

انہوں نے مزید کہا کہ فوج کا اسپیشل سروس گروپ اور کے پی پولیس کی ایلیٹ فورس یہ آپریشن سرانجام دے رہی ہیں۔

پولیس افسران کی 2017 کی فائل فوٹو میں پشاور میں دہشت گردوں سے پکڑا گیا اسلحہ اور دھماکہ خیز مواد دکھایا گیا ہے۔ کے پی پولیس نے بونیر میں ان دہشت گردوں کے خلاف ایک آپریشن کا آغاز کیا ہے جنہوں نے اگست میں مقامی شہریوں کو دھمکی آمیز خط بھیجے تھے۔ [جاوید خان]

پولیس افسران کی 2017 کی فائل فوٹو میں پشاور میں دہشت گردوں سے پکڑا گیا اسلحہ اور دھماکہ خیز مواد دکھایا گیا ہے۔ کے پی پولیس نے بونیر میں ان دہشت گردوں کے خلاف ایک آپریشن کا آغاز کیا ہے جنہوں نے اگست میں مقامی شہریوں کو دھمکی آمیز خط بھیجے تھے۔ [جاوید خان]

خان نے کہا کہ "انٹیلیجنس کی رپورٹوںکے بعد، تمام مشتبہ علاقوں کی نشاندہی کر لی گئی ہے اور ان کا قریبی جائزہ لیا جا رہا ہے"۔

انہوں نے کہا کہ "پولیس اور دیگر سیکورٹی فورسز اپنے مقصد -- امن کو حاصل کرنے کا عزم رکھتی ہیں"۔

پشاور سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی نثار محمود نے کہا کہ "ابھی تک مشترکہ مہم کامیابی سے جاری ہے تاہم کوئی عسکریت پسند ابھی ہلاک نہیں ہوا ہے"۔

محمود نے کہا کہ تاہم، "یہ حکومت اور اس کی فورسز کی طرف سے گروہ کو مقامی مدد حاصل کیے جانے سے پہلے ختم کیے جانے کے بارے میں حکومت کے عزم کا اظہار ہے"۔ انہوں نے مزید کہا کہ سیکورٹی فورسز کے اقدامات کے بعد، علاقے کے شہریوں میں سیکورٹی کا احساس بڑھ گیا ہے"۔

عسکریت پسندوں کی دھمکیاں

بونیر میں دہشت گردوں کی موجودگی اگست کے وسط میں، اس وقت واضح ہو گئی جب تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ایک کمانڈر عزیز الرحمان نے کے پی اسمبلی میں بونیر کے ایک رکن، سردار حسین بابک کو دھمکی آمیز خط لکھے۔

بابک نے کہا کہ "مجھے عید الاضحی کے دن، مقامی عسکری کمانڈر کی طرف سے ایک دھمکی آمیز خط ملا"۔

انہوں نے کہا کہ یہ خط، جسے رحمان نے پشتو میں لکھا تھا، دوسرے بہت سے لوگوں کو بھی ملا تھا۔

اس خط میں تمام وصول کنندگان کو دھمکی دی گئی تھی کہ وہ طالبان کا حکم مانیںورنہ حملے کے لیے تیار رہیں۔ اس میں مزید کہا گیا تھا کہ ٹی ٹی پی ٹارگٹ کلنگز، بم دھماکوں اور تشدد کی دیگر کاروائیوں کو پولیس، فوج اور حکومت کے حامیوں کے خلاف دوبارہ شروع کر دے گی۔

صحافی محمود نے کہا کہ "حکومتی فورسز کے لیے ان مٹھی بھر دہشت گردوںکا خاتمہ مشکل نہیں ہو گا جو حالیہ ہفتوں میں بونیر میں دوبارہ سے ابھر آئے ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ بونیر کے گرد مالاکنڈ میں شانگلہ اور سوات اور مردان ڈویژن میں صوابی اور مردان ڈسٹرکٹس موجود ہیں۔ آلام پہاڑ بھی سوات ڈسٹرکٹ کو چھوتے ہیں۔

محمود نے اس بات کا اضافہ کرتے ہوئے کہ حکومت نے امن بحال کرنے کے لیے کوششوں کا آغاز کر دیا ہے اور امید ہے کہ مسئلہ جلد ہی ختم ہو جائے گا، کہا کہ "مختلف افراد کو بھیجے جانے والے حالیہ خطوط نے مقامی آبادی میں ایک قسم کی دہشت پھیلا دی ہے"۔

منگورہ، سوات ڈسٹرکٹ کے 43 سالہ شہری نعیم الرحمان نے کہا کہ "بونیر میں خوف اور دھمکیوں کے پھیل جانے سے پہلے، امن کو یقینی بنانے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے"۔

انہوں نے کہا کہ سیکورٹی فورسز نے گزشتہ چند سالوں میں مالاکنڈ میں امن کو بحال کرنے میں بہت اچھا کام کیا ہے۔

رحمان نے کہا کہ "کسی کو بھی علاقے میں امن کے لیے کسی قسم کا خطرہ بننے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

الام نہیں بھائ ایلم پہاڑی سلسہ ہے

جواب