جرم و انصاف

حکام کو اسمگلنگ پر حالیہ کریک ڈاؤن میں بڑی کامیابی ملی ہے

جاوید خان

برقع میں ملبوس ایک خاتون، 2 اگست کو تین پہیؤں والی گاڑی پر، پشاور اسمگل کی جانے والی غیر قانونی اشیاء کے اوپر بیٹھی ہے۔ [جاوید خان]

برقع میں ملبوس ایک خاتون، 2 اگست کو تین پہیؤں والی گاڑی پر، پشاور اسمگل کی جانے والی غیر قانونی اشیاء کے اوپر بیٹھی ہے۔ [جاوید خان]

پشاور -- پاکستان نے پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کے ایک حکم پر عمل کرتے ہوئے، منشیات --جو کہ دہشت گردوں کے لیے آمدنی کا بنیادی ذریعہ ہے --- جیسے سامان کی اسمگلنگ پر کریک ڈاؤن کو تیز کر دیا ہے۔

حکام کا کہنا ہے کہ ان کوششوں کے ثمرات مل رہے ہیں۔

خان نے یکم جولائی کو ایک خصوصی میٹنگ کے دوران، اسمگلنگ اور اسمگل شدہ سامان پر کریک ڈاؤن کا حکم دیا۔ کسٹمز حکام کی طرف سے مرتکبین کے خلاف اقدامات، فیڈرل بورڈ آر ریوینیو (ایف بی آر) اور پولیس فورس اس وقت سے، خصوصی طور پر افغانستان کے ساتھ کے سرحدی علاقوں میں تیز ہو گئی ہیں۔

پاکستانی حکومت کی ترجمان اور وزیراعظم کی مشیرِ خصوصی برائے معلومات، ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے 2 جولائی کو ٹوئٹ کیا کہ "عمران خان کی قیادت میں، پاکستان نے اسمگلنگ کی وباء کے خلاف فیصلہ کن قدم کا آغاز کیا ہے"۔

انہوں نے مزید کہا کہ خان نے وزیرِ داخلہ کی قیادت میں ایک خصوصی کمیٹی بنائی ہے جو اسمگلنگ کے خلاف قوانین کا جائزہ لے گی تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ سرحدوں پر نگرانی موجود ہے اور افغان ٹرانزٹ ٹریڈ ایگریمنٹ کے کسی غلط استعمال کو روکا جا سکے۔

اگرچہ اسمگلنگ کی روک تھام کسٹمز ایجنٹس کا بنیادی کام ہے مگر ملک بھر میں پولیس، اسمگل شدہ سامان کے بہاؤ کو روکنے کے لیے مدد کر رہی ہے اور کسمٹز کے حکام کو پکڑی گئی اشیاء دے رہے ہیں۔

حکام نے کہا کہ خیبرپختونخواہ (کے پی) میں، اسمگلنگ روکنے کے لیے، پولیس کے اقدمات بہت اہم ہیں کیونکہ یہ علاقہ اسمگلنگ کے بہت بڑے روٹ کا حصہ ہے۔

سپریٹنڈنٹ آف پولیس (ایس پی) کوکب فاروق جو کہ کے پی پولیس کے ترجمان بھی ہیں، نے ستمبر میں ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ "سال کے پہلے چھہ ماہ کے دوران، کے پی پولیس نے مختلف قسم کی غیر قانونی اشیاء کو اسمگل کرنے کی 359 ناکام کوششوں میں کسٹمز کے حکام کو مدد فراہم کی ہے"۔

انہوں نے کہا کہ سال کے پہلے چھہ ماہ میں، کے پی پولیس نے 174 ملین روپوں (1۔1 ملین ڈالر) کی مالیت کی اسمگل شدہ اشیاء کو بازیاب کیا، جنہیں انہوں نے کسٹمز کے حوالے کر دیا۔

سینئر سپریٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) ظہور بابر آفریدی نے کہا کہ کے پی پولیس، اسمگلنگ کے خاتمے کے لیے کسٹمز حکام کو مکمل مدد فراہم کر رہی ہے۔

آفریدی نے ایک انٹرویو میں کہا کہ "ہم نے انہیں ضرورت میں ہر قسم کی مدد کی پیشکش کی ہے، جس میں اسمگلنگ کی ناکام کوششوں سے لے کر، ملزمان کو گرفتار کرنا اور غیر قانونی اشیاء حوالے کرنے تک شامل ہے"۔ انہوں نے مزید کہا کہ پولیس پشاور اور باقی ملک کو منشیات کی اسمگلنگ روکنے کے لیے اہم کردار ادا کرتی ہے۔

آفریدی نے کہا کہ "ہم نےمنشیات کے اسمگلروں اور ڈیلروں کے کئی بڑے بین الاقوامی گروہوں کو پکڑا ہےجو آئس (کرسٹل میتھ)، ہیرویئن، حشیش اور دیگر منشیات کو سرحد پار سے پشاور اور باقی کے ملک میں اسمگل کر رہے تھے"۔

مشترکہ چوکیاں

کے پی کے وزیراعلی محمود خان کو 21 اگست کو ایک اونچے درجے کی میٹنگ کے دوران بتایا گیا کہ پولیس نے اس سال کے پی بھر میں، منشیات کے 1،902 اسمگلروں اور ڈیلروں کے خلاف مقدمات درج کیے ہیں۔

کے پی حکومت کی طرف سے جاری کیے جانے والے ایک سرکاری ہینڈ آوٹ کے مطابق، اعلی حکام نے وزیرِاعلی کو مطلع کیا کہ پولیس نے ملزمان کو گرفتار کر کے 3،500 کلوگرام حشیش، 217 کلوگرام ہیروئین، 10 کلوگرام آئس اور 167 کلوگرام افیم قبضے میں لی ہے۔

کے پی کے سابقہ انسپکٹر جنرل پولیس، ناصر خان درانی نے مارچ 2016 میں وفاقی حکومت کو لکھے جانے والے ایک خط میں، اس وقت کے قبائلی علاقوں سے صوبہ پنجاب کو اسمگل کی جانے والی غیر قانونی اشیاء کی تعداد پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔

انہوں نے وفاقی حکومت کو تجویز پیش کی تھی کہ وہ اہم علاقوں میں کسٹمز اور پولیس کی مشترکہ چوکیاں قائم کرے، جہاں اردگرد کلوز سرکٹ ٹیلیویژن کیمرے اور اسکینر لگے ہوں جو اسمگلنگ کو روکنے میں ان کی مدد کریں۔

خط میں کہا گیا کہ اسمگلنگ سے کمائی جانے والی رقم سے دہشت گردی کے لیے سرمایہ فراہم کیا جاتا تھا۔

ایف بی آر نے 17 اگست کو بازاروں اور بڑے تجارتی مراکز کا جائزہ لینے کا فیصلہ کیا تاکہ ان بازاروں میں اسمگل شدہ سامان کی فروخت کو روکا جا سکے۔ حکام کے مطابق، ایف بی آر کی ٹیمیں ستمبر سے تمام بڑے شہروں میں ایسے بازاروں کا دورہ کریں گی۔

پشاور سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی، قیصر خان نے کہا کہ "اسمگلنگ مقامی صنعت اور کاروباروں کے لیے سنگین خطرہ ہے مگر کسی نے کبھی بھی اس وباء کو روکنے کے لیے موثر اقدامات نہیں کیے ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ سب سے بڑا خطرہ سرحد پار سے منشیات کی اسمگلنگ ہے۔

خان نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ حکام کو منشیات کے ٹریفکروں اور اسمگلروں کے خلاف زیادہ موثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، کہا کہ "ہزاروں لوگ آسانی سے منشیات حاصل کر رہے ہین اگرچہ کہ وہاں پر بہت سی سیکورٹی فورسز موجود ہیں"۔

خان نے کہا کہ درانی کے خط کے مطابق، اسمگلنگ سے حاصل ہونے والا منافع دہشت گردی کے لیے سرمایہ فراہم کر رہا ہے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

بہترین

جواب