سفارتکاری

تجزیہ نگاروں کے مطابق، امن کانفرنس کی منسوخی کے ذمہ دار طالبان ہیں

اشفاق یوسف زئی

گرین ویلیج کے پاس 2 ستمبر کو ہونے والے ایک بڑے دھماکے کے بعد، کابل میں 3 ستمبر کو، دھماکے کی جگہ سے دھواں اٹھ رہا ہے۔ یہ حملہ ان بہت سے حملوں میں سے ایک تھا، جسے طالبان نے امریکہ کے ساتھ امن مذاکرات کرتے ہوئے، کیا ہے۔ [وکیل کوہسار/ اے ایف پی]

گرین ویلیج کے پاس 2 ستمبر کو ہونے والے ایک بڑے دھماکے کے بعد، کابل میں 3 ستمبر کو، دھماکے کی جگہ سے دھواں اٹھ رہا ہے۔ یہ حملہ ان بہت سے حملوں میں سے ایک تھا، جسے طالبان نے امریکہ کے ساتھ امن مذاکرات کرتے ہوئے، کیا ہے۔ [وکیل کوہسار/ اے ایف پی]

پشاور -- پاکستان میں سیکورٹی کے تجزیہ نگار، افغان طالبان پر، اصولی طور پر تشدد کو کم کرنے پر اتفاق کرنے کے باجود، حملے کر کے، امریکہ کے ساتھ، مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کا الزام لگا رہے ہیں۔

اے ایف پی نے خبر دی ہے کہ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ہفتہ (7 ستمبر) کو اعلان کیا کہ انہوں نے کیمپ ڈیوڈ، جو کہ واشنگٹن کے قریب صدارتی جائے آرام ہے، میں ایک خفیہ کانفرنس کو منسوخ کر دیا ہے، جس میں افغان حکومت اور طالبان کے ساتھ الگ الگ مذاکرات شامل ہونے تھے۔

ٹرمپ نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ "تقریبا ہر کسی کی لاعلمی میں، اہم طالبان راہنماؤں اور افغانستان کے صدر نے الگ الگ، خفیہ طور پر مجھ سے اتوار کو کیمپ ڈیوڈ میں ملنا تھا"۔

ٹرمپ نے جمعرات (5 ستمبر) کو کابل میں جمعرات (5 ستمبر) کو ہونے والے بم دھماکے کا حوالہ دیتے ہوئے، جس میں ایک امریکی فوجی اور رومانیہ سے تعلق رکھنے والا ایک سروس ممبر ہلاک ہو گیا تھا، کہا کہ "بدقسمتی سے، جھوٹ سے صورتِ حال کو اپنے مفاد میں کرنے کے لیے، انہوں نے کابل میں اس حملے کی ذمہ قبول کی جس میں ہمارے عظیم عظیم فوجیوں میں سے ایک اور 11 دیگر افراد ہلاک ہو گئے"۔

سوشل میڈیا پر پوسٹ کی جانے والی ایک تصویر میں، 3 ستمبر کو کابل میں، طالبان کے کار بم کے دھماکے کے بعد کی تباہی کو دکھایا گیا ہے۔ [فائل]

سوشل میڈیا پر پوسٹ کی جانے والی ایک تصویر میں، 3 ستمبر کو کابل میں، طالبان کے کار بم کے دھماکے کے بعد کی تباہی کو دکھایا گیا ہے۔ [فائل]

یہ بم دھماکہ طالبان کی طرف سے دعوی کیے جانے والا تازہ ترین بڑا حملہ تھا، یہاں تک کہ وہ افغانستان میں بحالی کے لیے امریکہ کے افغانستان کے لیے خصوصی نمائندے زلمے خالدزاد کے ساتھ، امریکی افواج کے واپس چلے جانے کے بارے میں مذاکرات کر رہے تھے۔

امریکہ کے سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیئو نے اتوار (8 ستمبر) کو سی این این کو بتایا کہ طالبان نے اصولی طور پر، دوسری باتوں کے علاوہ، افغان راہنماؤں کے ساتھ براہِ راست مذاکرت کرنے، تشدد کو کم کرنے اور القاعدہ کے ساتھ تعلقات کو توڑنےپر اتفاق کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ "اگر ہم ان شرائط کو پورا نہیں کر سکتے ۔۔۔ تو ہم کسی معاہدے تک نہیں پہنچ سکتے"۔

انہوں نے کہا کہ "جب طالبان نے مذاکرات میں اوپری ہاتھ پانے کے لیے ملک کے اندر دہشت گردانہ حملے کرنے کی کوشش کی تو صدر ٹرمپ نے درست فیصلہ کیا" چھوڑ دینے کا۔ "اس بات کا کوئی تُک نہیں بنتا تھا کہ طالبان کو ان کے اس طرح کے برے رویے کا انعام دیا جاتا"۔

امن کی امیدوں کو چکنا چور کرنا

پشاور سے تعلق رکھنے والے سیکورٹی کے تجزیہ نگار برگیڈیر (ریٹائرڈ) محمود شاہ نے کہا کہ "امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے 7 ستمبر کو کیمپ ڈیوڈ میں طالبان کے سینئر راہنماؤں کے ساتھ میٹنگ کو منسوخ کرنا کسی کے لیے حیرت کا باعث نہیں ہونا چاہیے کیونکہ طالبان طاقت سے حکومت کرنا چاہتے ہیں"۔

شاہ، جنہوں نے، جنوبی وزیرستان میں، سابقہ وفاق کے زیرِانتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) کے سیکٹری برائے سیکورٹی کے طور پر، اپریل 2004 میں پاکستانی طالبان کے ساتھ، اولین امن معاہدہ (شکائی معاہدہ) کرنے میں مدد فراہم کی تھی، کہا کہ افغان طالبان پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا کیونکہ انہوں نے ماضی میں عادتاً امن معاہدوں کو توڑا ہے۔

شکائی معاہدہ دو ماہ بعد، ناکام ہو گیا کیونکہ پاکستانی طالبان نے تشدد کو ترک کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

شاہ نے اپنے تجربے کی بنیاد پر کہا کہ "ماضی میں بھی، عسکریت پسندوں نے معاہدے توڑے ہیں کیونکہ وہ امن پر تشدد کو ترجیح دیتے ہیں۔ وہ تشدد سے طاقت حاصل کرتے ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ طالبان کے عسکریت پسندوں سے کئی دہائیوں تک جاری رہنے والی جنگ کو ختم کر دینے کی امید کرنا غلط ہے کیونکہ انہیں بندوقیں اور بم استعمال کرنے کی تربیت دی گئی ہے اور ان کی حکمتِ عملی میں امن کی کوئی جگہ نہیں ہے۔

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے سیکورٹی کے سینئر تجزیہ کار لیفٹینٹ جنرل (ریٹائرڈ) طلعت مسعود نے کہا کہ "طالبان نے امن کی امیدوں کو چکنا چور کر دیا کیونکہ وہ امریکہ کے ساتھ مذاکرات کرتے ہوئے افغانستان میں بم دھماکے بھی کر رہے تھے جس نے صدر ٹرمپ کو مجبور کیا کہ وہ مذاکرات کو منسوخ کر دیں"۔

انہوں نے کہا کہ "یہ انتہائی مایوس کن ہے کہ طویل عرصے سے انتظار کیے جانے والے امن مذاکرات کے نتائج کو چکنا چور کر دیا گیا ہے۔ ہم نے امید پال لی تھی کہطالبان دہشت گردی کو ختم کریں گے اور امن کا راستہ چنیں گے مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا"۔

پشاور سے تعلق رکھنے والے سیکورٹی اور سیاست کے سینئر تجزیہ نگار خادم حسین نے کہا کہ "طالبان اپنی غیرقانونی حکومت کو قائم کرنے کے لیے، طلباء، خواتین اور بچوں کو قتل کرنے کے لیے بدنام ہیں۔ انہوں نے سابقہ فاٹا اور مالاکنڈ اور اس کے ساتھ ہی افغانستان میں ایسی حکمتِ عملیاں اپنائی ہیں"۔

حسین نے کہا کہ "مسلمان امہ کو طالبان سے درخواست کرنی چاہیے کہ وہ تشدد کو ختم کر کے مذاکرات کو دوبارہ سے شروع کریں"۔

پشاور کے ایک امام مولانا جلال شاہ نے کہا کہ طالبان بار بار اپنے وعدوں کو توڑنے سے، دنیا بھر میں مسلمانوں کے لیے بدنامی کا باعث بنے ہیں"۔

انہوں نے طالبان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ "مسلمان ہونے کے ناطے، آپ کو مخالفین سے کیے جانے والے معاہدوں پر عمل کرنا چاہیے کیونکہ معاہدوں کا احترام کرنا اسلام کے بنیادی اجزا میں سے ایک ہے"۔

انہوں نے کہا کہ تاہم، عسکریت پسند، اسلام کی تعلیمات کے برخلاف، اپنے ہی لوگوں کو ہلاک کرنا جاری رکھیں گے"۔

امام شاہ نے کہا کہ تمام طبقہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والے مذہبی علماء نے خودکش حملوں کی مخالفت کی ہے اور ان کے خلاف فتوے دیے ہیں مگر طالبان ایسی ہلاکتوں اور عام شہریوں کو زخمی کرنا جاری رکھا ہوا ہے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 3

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

تاریخ گواہ ہے کہ آج تک طالبان کہ ساتھ کوئی بھی معائدہ نافذالعمل نہیں ہوا کیونکہ تشدد کہ عمل کو خیرآباد کہنا ان کہ بس کی بات نہیں اور وجہ اس کی بنیادی طور پر دھڑےبندی ہے۔یعنی ایک خاص علاقہ کا مقامی کمانڈر اپنی مرضی کا مالک ہے اور سنڑل کمانڈ اس معاملے میں بہت حد تک بےاختیار ہے کہ کوئی مشترکہ لائحہ عمل جاری کر سکے اور مقامی کمانڈروں کو کاراوئیؤں سے روک سکے۔ ۱۸ سالہ شورش میں اب تک ۳۴۰۰ غیرملکی فوجی جبکہ لاکھوں کی تعداد میں مقامی لوگ جن کی اکثریت عورتوں،بچوں،بوڑھوں اور عام عوام پر مشتمل ہے ہلاک ہو چکی ہے۔ ایسے عمل کو جہاد کی بجائے فساد کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔

جواب

کیا تبصرہ کیا جائے مذاکرات جاری ھون تب امریکن حملے کرکے شادیون مین بم پھینکین تو جائز مگر طالبان دوران مذاکرات کسی فوجی چھاؤنی پر حملہ کرین تو ناجائز! واہ رے دیانت اور اصول.... دوران مذاکرات ملا ھیبت اللہ جو کہ طالبان امیر ھین انکے بھائی کو مار دیا جاتا ھے تب خیر تھا....

جواب

امریکہ گذشتہ ایک سال سے طالبان سے صرف پندرہ دن کی جنگ بندی مانگ رہا تھا تاکہ وہ اس دوران اپنی افواج کو وہاں سے نکال لے۔ لیکن طالبان کا موقف یہ تھا کہ جب تک معاہدہ نہیں ہوتا، ہم جہاد ترک نہیں کر سکتے۔ مذاکرات میں تعطل آیا تو طالبان کو خبر ملی کہ امریکہ کابل سے اپنے سپاہی خاموشی سے نکال رہا ہے۔ مطلب یہ تھا کہ اس کے بعد بلیک واٹر کے ذریعے ایک خونریزی شروع کی جائے اور طالبان کو دہشت گردی کے نام پر بدنام کیا جائے۔ طالبان نے پیش قدمی شروع کی، قندوز فتح کیا اور کابل کی جانب روانہ ہو گئے۔ کیا مردانِ خدا تھے، پھٹے جوتوں اور ننگے پاؤں چلنے والے، لیکن ہیبت ایسی کہ فورا ً زلمے خلیل زاد رات کو ایک بجے بول اٹھا کہ ہم معاہدے پر قائم ہیں اور معاہدہ ٹرمپ کو دستخط کے لیے بھیجا جا چکا ہے اور ہم تمام فوجی واپس بلا لیں گے اگر طالبان ان کی سیکورٹی کی ذمہ داری لے لیں۔ طالبان اب ان چالوں میں آنے والے نہیں تھے، ان کا نشانہ گرین ولیج میں قائم کیمپ انٹیگریٹی تھا جہاں بلیک واٹر کیل کانٹے سے لیس افغان امن برباد کرنے کے لیے تیار تھی۔ یہ حملہ اس قدر شدید تھا کے پورا علاقہ زلزلہ زدہ کھنڈر میں تبدیل ہو گیا۔ دھماکے کے فورا ً بعد طالبان اندر داخل ہوئے اور تیس کے قریب بلیک واٹر کے لوگوں کو قتل کیا اور ڈیڑھ سو کو زخمی۔ کسی کو اندازہ تک نہیں تھا کہ کابل کے مرکزی سیکورٹی علاقے میں بھی طالبان موجود ہونگے جبکہ وہ تو قندوز فتح کرکے پل چرخی کی مہم پر جنگ میں مصروف تھے۔ اس حملے میں طالبان نے اس بلیک واٹر کے انچارج کی تصویر بھی جاری کی ہے جو ہلاک ہوا۔ جس کی یونیفارم پر بلیک واٹر کا نشان اور پشتو کا محاورہ ''دہ گزدہ میدان'' لکھا ہوا تھا۔ یہ شخص شفیق اللہ افغانستان میں وحشی کے طور پر مشہور تھا جسے بنی حصار میں قتل کیا

جواب