سلامتی

پاکستان دہشت گردی میں سرمایہ کاری کی 'گرے لسٹ' سے نکلنے میں مصروفِ عمل

از اشفاق یوسفزئی

پشاور چھاؤنی میں ایک کرنسی ایکسچینج مارچ میں دیکھی جا سکتی ہے۔ [اشفاق یوسفزئی]

پشاور چھاؤنی میں ایک کرنسی ایکسچینج مارچ میں دیکھی جا سکتی ہے۔ [اشفاق یوسفزئی]

اسلام آباد -- پاکستان فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف)، جو کہ دہشت گردی میں سرمایہ کاری کی نگرانی کرنے والا ادارہ ہے، کے تقاضوں کو پورا کرنے میں مصروفِ عمل ہے جس نے ملک کو گزشتہ برس اپنی نام نہاد گرے لسٹ میں ڈال دیا تھا۔

ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو جون 2018 میں اپنے واچ لسٹ میں شامل کیا تھا جس کی وجہ منی لانڈرنگ اور دہشت گردی میں سرمایہ کاری کا مقابلہ کرنے کے لیے اس کی صلاحیت میں"تزویراتی کمیاں" بیان کی گئی تھی۔

جواب میں، حکومت نے فہرست سے نکلنے کے لیے 27 نکاتی عملی منصوبہ تیار کیا ہے۔

ڈان نے بتایا ہے کہ ایف اے ٹی ایف نے 18-13 اکتوبر کو پیرس میں اپنے مکمل اور عملی گروپ کے اجلاسوں کے بعد پاکستان کی جانب سے تعمیل کے منصوبے کا جائزہ مکمل کرنا ہے۔

وزیرِ اعظم عمران خان نے یکم دسمبر تک ادارے کے تقاضوں پر کام کرنے کے لیے 24 اگست کو ایک 12 رُکنی ایف اے ٹی ایف رابطہ کمیٹی تشکیل دی تھی۔

وفاقی وزیر برائے اقتصادی امور حماد اظہر کی سربراہی میں، کمیٹی میں وفاق کے اقتصادی، امورِ خارجہ اور داخلہ کے سیکریٹریز نیز ریگولیٹری حکام اور منی لانڈرنگ اور دہشت گردی میں سرمایہ کاری سے متعلقہ تمام اداروں کے ڈائریکٹر صاحبان شامل ہیں۔

پارلیمانی امور کے وفاقی وزیر علی محمد خان نے کہا کہ حکومت ایف اے ٹی ایف کی شرائط کو پورا کرنے اور عالمی برادری کے ساتھ امن سے رہنے میں بہت سنجیدہ ہے۔

انہوں نے کہا، "قومی اسمبلی نے غیر ملکی زرِ مبادلہ کے ضوابط اور منی لانڈرنگ کو روکنے کے قانون میں ترامیمکی منظوری دے دی ہے، اور ہم 18-13 اکتوبر کو پیرس میں ایف اے ٹی ایف کے اجلاس سے قبل اس کی توقع کے مطابق ترمیم شدہ قوانین کو منظور کروانے کی کوشش کر رہے ہیں۔"

ایف اے ٹی ایف کی ہدایات میں اداروں، بشمول صوبائی اور وفاقی محکمہ جات، کے مابین رابطوں کو بہتر بنانا شامل ہے تاکہ دہشت گردی میں سرمایہ کاری کے خلاف جنگ کی جائے اور نامزد کردہ افراد اور اداروں کے خلاف کارروائی کی جائے۔

خان نے کہا کہ پاکستان کے قومی ادارہ برائے انسدادِ دہشت گردی (نیکٹا) نے حال ہی میں دو مزید تنظیموں، حزب الاحرار اور بلوچستان راجی اجوئی سانگر (براس)، کو انسدادِ دہشت گردی کے قانون کے تحت کالعدم قرار دیا ہے، اور ان کے ارکان اور سرگرمیوں کو زیرِ نگرانی رکھ لیا ہے۔

خان نے کہا کہ حکومت نے عالمی برادری کو یہ دکھانے کے لیے کالعدم تنظیموں جیسے کہ حقانی نیٹ ورک، جماعت الدعوۃ اور دیگر پابندی شدہ تنظیموںکے خلاف کارروائی کی ہے کہ نئی قیادت اپنے بین الاقوامی فرائض کو پورا کرنے کے لیے درکار تمام اقدامات کرنے میں مخلص ہے۔

کام جاری

پشاور کے مقامی ایک سابقہ پولیس افسر، ہدایت الرحمان نے کہا، "پاکستان نے پہلے ہی 71 کالعدم تنظیموں پر پابندی لگا دی ہے اور ان کے کھاتوں اور بنیادی ڈھانچے کو منجمد کر دیا ہے۔"

انہوں نے کہا کہ تاہم، مربوط کوششوں کی ضرورت ہے "یہ یقینی بنانے کے لیے کہ منی لانڈرنگ کا خاتمہ ہو اور دہشت گردی میں سرمایہ کاری کی روک تھام کی جائے۔"

رحمان نے کہا کہ امریکہ میں 11/9 کے دہشت گرد حملوں کے بعد سے، دنیا بھر میں اتفاقِ رائے پایا جاتا رہا ہے کہ غیر بینکاری ذرائع سے منتقل ہونے والا پیسہ دہشت گردی میں سرمایہ کاری کے لیے استعمال ہوتا ہے، انہوں نے مزید کہا کہ پیرس کی مقامی ایف اے ٹی ایف تمام ممالک -- بشمول پاکستان -- کو منی لانڈرنگ کو روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے کی ترغیب دیتی رہی ہے۔

رحمان کے مطابق منی لانڈرنگ اور دہشت گردی میں سرمایہ کاری پر ایف اے ٹی ایف کے اہداف کو پورا کرنے کے لیے ابھی تک کے حکومتی اقدامات اس کے اپنے مفاد میں ہیں کیونکہ گزشتہ دو دہائیوں میں ملک جارحانہ دہشت گردی کا گواہ رہا ہے۔

انہوں نے کہا، "دنیا کو ایک وسیع اور واضح پیغام دینے کے لیے کہ ہم دہشت گردی سے اکتا گئے ہیں اور اس کی وجوہات کو ختم کرنا چاہتے ہیں،ہمیں دہشت گرد تنظیموں کے لیے تمام مالیاتی ذرائع کو روکنا ہو گا۔"

پشاور کے مقامی وکیل نور عالم خان نے کہا، "ہمیں گرے لسٹ سے نکلنے کے ایف اے ٹی ایف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے منی لانڈرنگ میں ملوث افراد کو گرفتار کرنا ہو گا، سائنسی بنیادوں پر تحقیقات کرنی ہوں گی، استغاثے قائم کرنے ہوں گے اور اس کے بعد سزاؤں کو یقینی بنانا ہو گا۔"

دلالوں کے ذریعے سرحد کے آر پار پیسے کی روایتی منتقلی کا حوالہ دیتے ہوئے خان نے کہا، "ایف اے ٹی ایف کو قائل کرنے کے لیے، ہمیں وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) اور محکمۂ انسدادِ دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے ذریعے حوالہ اور ہُنڈی کے خلاف سخت کارروائیوں کو تیز کرنا ہو گا۔"

انہوں نے کہا کہ سٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) نے پہلے ہی امریکہ کی جانب سے دہشت گرد قرار دیئے گئے افراد اور تنظیموں کے اثاثہ جات منجمد کر دیئے ہیں، اور تمام چھوٹے گروہوں اور افراد کی سختی سے نگرانی کی جانی چاہیئے۔

بینک کھاتوں اور دیگر اثاثہ جات کا حوالہ دیتے ہوئے، پشاور کے مقامی دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر (ر) محمود شاہ نے کہا کہ منی لانڈرنگ کے لیے باضابطہ راستوں کی بندش ایک درست اقدام ہے۔

شاہ نے کہا، تاہم، حکومت کو چاہیئے کہ بے ضابطہ زمینی، سمندری اور فضائی راستوں سے بھی پیسے، قیمتی اشیاء نیز منشیات کی سمگلنگ کا خاتمہ کرے۔

انہوں نے کہا، "افغانستان کے ساتھ طویل سرحد پر باڑ کی تنصیب، جو کہ تکمیل کے قریب ہے، منی لانڈرنگ اور سمگلنگ کے خلاف جنگ میں ایک بڑی کامیابی ہے۔"

شاہ نے کہا، "پاکستان پیسے کی غیر قانونی ترسیل میں ملوث افراد کے ساتھ نرمی دکھانے کا متحمل نہیں ہو سکتا کیونکہ اس نے دہشت گردوں کے ہاتھوں کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ معاشی اور انسانی نقصانات اٹھائے ہیں۔"

انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان اور ایران کے ساتھ سرحدی انتظام بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

گرے لسٹ پاکستان کے ساتھ ایک مذاق ہے۔

جواب