جرم و انصاف

پولیس نے سوشل میڈیا پر رپورٹ کیے جانے والے جرائم سے نمٹنا شروع کر دیا

جاوید خان

پولیس نے سوشل میڈیا پر پوسٹ کیے جانے والے مواد کی بنیاد پر جرائم کی تفتیش شروع کر دی ہے۔ [فائل]

پولیس نے سوشل میڈیا پر پوسٹ کیے جانے والے مواد کی بنیاد پر جرائم کی تفتیش شروع کر دی ہے۔ [فائل]

پشاور -- پاکستان میں پولیس اور حکام سوشل میڈیا پر شکایات کا جلد از جلد جواب دینے کے لیے کام کر رہے ہیں۔

گزشتہ کئی ماہ کے دوران ٹوئٹر، فیس بک اور واٹس ایپ سے جنم لینے والی شکایات پر گرفتاریاں کی گئی ہیں، اور افسران براہ راست جواب دے کر، عوام کے ساتھ موجود خلا کو پُر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

پشاور پولیس کے ایک ترجمان الیاس خان نے کہا کہ "پہاڑپورہ میں رہنے والی ایک خاتون شفق زاور کو، کسی کی طرف سے سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیو پوسٹ کیے جانے کے تھوڑی دیر بعد ہی گرفتار کر لیا گیا، جس میں اسے اپنے ہی بیٹے کو بیدردی سے مارتے ہوئے دکھایا گیا تھا"۔

خان نے اس بات کا اضافہ کرتے ہوئے کہ اگرچہ ویڈیو پرانی تھی، مگر پولیس نے اس کے سوشل میڈیا پر آنے کے بارے میں جاننے کے فورا بعد، عملی قدم اٹھایا، کہا کہ "خاتون نے اپنے بیٹے پر تشدد کی ویڈیو اپنے شوہر کو ذہنی طور پر پریشان کرنے کے لیے بنائی تھی"۔

ایک خاتون طالبہ (دائیں) نامعلوم تاریخ کی اس تصویر میں خاتون پولیس اہلکار کے ساتھ کھڑی ہے، اسے اپنے بیٹے پر تشدد کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ [پشاور پولیس]

ایک خاتون طالبہ (دائیں) نامعلوم تاریخ کی اس تصویر میں خاتون پولیس اہلکار کے ساتھ کھڑی ہے، اسے اپنے بیٹے پر تشدد کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ [پشاور پولیس]

سوشل میڈیا پر بہت سے لوگوں نے ویڈیو بنانے والی خاتون کے خلاف فوری طور پر قدم اٹھانے پر پولیس کی تعریف کی۔

پشاور کی ایک شہری، آمنہ خان نے فیس بک پر کہا کہ "پشاور پولیس اور ان تمام افسران کا شکریہ جنہوں نے نوٹس لیا، خاتون کو گرفتار کیا اور اس بات کو یقینی بنایا کہ بچہ محفوظ ہے"۔

ایک دوسرے واقعہ میں، پولیس نے ایسے دو افراد کو گرفتار کیا جن پر سوشل میڈیا پرخواتین کو ہراساں کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔

لاہور کے سپریٹنڈنٹ آف پولیس (ایس پی) احسان سیف اللہ نے کہا کہ "اگست کے مہینے میں دو نوجوانوں کی گرفتاری، ٹوئٹر پر دو مختلف خواتین کی طرف سے ان الزامات کے بعد آئی کہ انہیں ملزمان نے حراساں کیا ہے"۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان خواتین نے ایک ہفتے کے دورانیے میں یہ شکایات درج کروائی تھیں۔

انہوں نے کہا کہ ایک خاتون نے ہراساں کرنے والے کی تصویر پوسٹ کی تھی اور دوسری نے ایک وڈیو، جس پر سوشل میڈیا پر شوروغوغا شروع ہو گیا تھا۔

مشہور ہونے والی پوسٹز پر اقدام

سیف اللہ نے کہا کہ "ہم نے دونوں ملزمان کا پتہ تصاویر اور ویڈیوز سے حاصل ہونے والی راہنمائی سے کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ لاہور کے کیپیٹل سٹی پولیس افسر (ایس ایس پی او) بی اے ناصر نے ان واقعات کا نوٹس لیا اور افسران کو ان ملزمان کو پکڑنے کا حکم دیا۔

دریں اثناء، سیف اللہ کے مطابق، لاہور پولیس نے 13 اگست کو فیکٹری ایریا پولیس اسٹیشن میں ایک ایسی خاتون کے خلاف مقدمہ درج کیا، جس کی ایک مال میں سلیزویمن کو مارنے والی ویڈیو، جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔

سیف اللہ نے کہا کہ "ایک اور ملزم، ابراہیم شیخ جس کا تعلق اقبال ٹاون سے ہے، کو سوشل میڈیا پر مشہور ہونے والی ایک ویڈیو کے بعد، گرفتار کیا گیا، جس میں اسے ایک عوامی جگہ پرہوائی فائرنگ کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا"۔

شیخوپورہ کے ریجنل پولیس افسر (آر پی او) سہیل حبیب تاجک نے کہا کہ "شیخوپورہ پولیس نے سوشل میڈیا کی رپورٹس کے بعد، فوری طور پر قدم اٹھایا اور ملزم ابراہیم شیخ کو گرفتار کر لیا"۔

دیگر حکومتی اہلکار، بوقتِ ضرورت فوری طور پر کام کر رہے ہیں۔ سینئر حکام نے گزشتہ ہفتے اس وقت فوری طور پر قدم اٹھایا جب ایک ویڈیو میں ایک نابیناء شخص کو اپنی آنکھوں کے علاج کا متلاشی دکھایا گیا۔

پاکستان بیت المال، جو کہ اسلام آباد میں قائم خیرات اور سماجی بھلائی کی خودمختار حکومتی تنظیم ہے، کے ڈپٹی مینجنگ ڈائریکٹر مبشر حسن نے کہا کہ "ہمارے افسران نے ڈیرہ غازی خان میں محمد نعیم سے رابطہ کیا اور اس کے کیس پر فاسٹ-ٹریک بنیادوں پر سرکاری امداد کے لیے کام کیا جا رہا ہے"۔

مبشر اور اس کے ڈپارٹمنٹ نے بہت سے ایسے پاکستانیوں کو امداد فراہم کی ہے، جنہوں نے تصاویر اور ویڈیوز کے ذریعے امداد کی اپیل کی ہے۔

پشاور سے تعلق رکھنے والے ایک رکشا ڈرائیور یار محمد نے کہا کہ "مجھے کسی کی طرف سے ٹوئٹر پر میری اپیل پوسٹ کیے جانے کے فورا بعد، کال ملی اور حکام نے مجھ سے کہا کہ اپنی ماں کے علاج کے لیے درکار مزید کاغذات جمع کرواؤں"۔

انہوں نے پاکستان بیت المال کی تعریف کی جس نے سوشل میڈیا کی پوسٹ کی بنیاد پر فوری طور پر قدم اٹھایا۔

بہت سے مشاہدین،پولیس کی طرف سے انتہاپسند اور دہشت گرد گروہوں کی طرف سے سوشل میڈیا پر پوسٹ کیے جانے والے مواد، پر قدم اٹھانے کا امکان بھی دیکھ رہے ہیں"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

جہاں یہ چیز فائدہ مند ہے وہاں نقصان دہ بھی ہے ۔ دوسرا حکومت کی طرف سے عوام کو دبانے کا ذریعہ بھی ۔

جواب