سلامتی

عسکریت پسندوں نے صوبہ بلوچستان میں حملوں کے ایک سلسلے میں افغان طالبان کو نشانہ بنایا

عبدل غنی کاکڑ

طالبان کے ہلاک ہونے والے راہنما ملا محمد اعظم کی لاش، 17 اگست کو کوئٹہ کے قریب کچلک علاقے کے قریب ایمبولینس سے لے جائی جا رہی ہے۔ ]عبدل غنی کاکڑ[

طالبان کے ہلاک ہونے والے راہنما ملا محمد اعظم کی لاش، 17 اگست کو کوئٹہ کے قریب کچلک علاقے کے قریب ایمبولینس سے لے جائی جا رہی ہے۔ ]عبدل غنی کاکڑ[

کوئٹہ -- صوبہ بلوچستان کے مختلف حصوں میں افغان طالبان کے خلاف حملوں کے ایک حالیہ سلسلے نے عسکریت پسند گروہ کے کئی راہنماؤں کو ہلاک کر دیا ہے۔

وزارتِ دفاع کے ذرائع کے مطابق، جمعہ (16 اگست) کو کوئٹہ کے مضافات میں کچلک کے علاقے کے ایک مدرسے میں ہونے والے بم دھماکے میں افغان طالبان کے سربراہ ملا حکمت اللہ اخونزادہ کا بھائی ہلاک ہو گیا تھا۔

اے ایف پی کے مطابق، طالبان کے دو ذرائع -- ایک کوئٹہ اور ایک چمن میں -- نے بھی کہا ہے کہ وہ ہلاک ہو گیا ہے۔

وزارت کے ذرائع نے کہا کہ ہفتہ (17 اگست) کو قتل کے ایک الگ واقعہ میں، عسکریت پسندوں نے طالبان کے ایک اور اہم راہنما اور حیبت اللہ کے قریبی ساتھی ملا محمد اعظم اخوند کو کچلک کے علاقے قلعی قاسم میں ہلاک کر دیا۔

طالبان کے حکام 7 جولائی کو دوحہ، قطر میں بین-افغان مذاکرات میں شرکت کے لیے آ رہے ہیں۔ پاکستانی حکام پاکستان میں ایسے کاروباروں اور سرمایہ کاری کی تفتیش کر رہے ہیں جن کا تعلق، طالبان سے ہے۔ ]کریم جعفر/اے ایف پی[

طالبان کے حکام 7 جولائی کو دوحہ، قطر میں بین-افغان مذاکرات میں شرکت کے لیے آ رہے ہیں۔ پاکستانی حکام پاکستان میں ایسے کاروباروں اور سرمایہ کاری کی تفتیش کر رہے ہیں جن کا تعلق، طالبان سے ہے۔ ]کریم جعفر/اے ایف پی[

ذرائع نے مزید کہا کہ عسکریت پسندوں نے اتوار (18 اگست) کو صوبہ بلوچستان کے ضلع چاغی کے علاقے گردی جنگلی، میں طالبان کے ایک مدرسے پر حملہ کیا اور طالبان کے کمانڈر ملا میراں جان کو ہلاک اور تین دیگر کو زخمی کر دیا۔

دریں اثناء طالبان کے راہنما، پاکستان کی وفاقی تحقیقاتی ایجسنی کی طرف سے جاری ایک نقصان دہ تفتیش کو گھمانے کی کوشش کر رہے ہیںجس کے مطابق، پاکستان میں کئی کاروباروں اور سرمایہ کاریوں پر گروہ کے راہنماؤں کی ملکیت ہونے کا شبہ ہے۔

ایک سینئر انٹیلیجنس اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ "افغان طالبان پناہ کے لیے زیادہ تر مہاجرین کے علاقوں کو استعمال کر رہے ہیں

انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے پشتون آبادی والے علاقوں جن میں چمن، کچلک، پشین، سرانان، پشتون آباد اور دیگر کے ساتھ کوئٹہ کے مشرقی بائی پاس کے علاقے شامل ہیں، میں طالبان کی کافی ٹھوس موجودگی ہے۔

حکام نے کہا کہ "ہماری قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں علاقے سے امن مخالف گروہوں کا خاتمہ کرنے کے لیے کوششیں کر رہی ہیں۔ ہماری سرزمین پر "افغان طالبان" زیادہ تر گمنام رہنے کی کوشش کر رہے ہیں اور افغان مہاجرین کی آڑ کو استعمال کرتے ہوئے اپنی شناخت چھپا رہے ہیں"۔

انہوں نے مزید کہا کہ کچلاک کے بم دھماکوں کے بعد، "بلوچستان میں بڑے پیمانے پر تفتیش شروع ہوئی تاکہ ان مدرسوں کی شناخت ہو سکے جو وفاق المدرسہ العربیہ جو کہ پاکستان کا مذہبی نصابی بورڈ ہے، سے تعلق نہیں رکھتے ہیں"۔

اہلکار نے مزید کہا کہ "گزشتہ سال، طالبان کی مرکزی شوری کے ایک سینئر رکن ملا کوچئی کو بھی کچلک میں ہلاک کر دیا گیا تھا تاہم اس حملے کی ذمہ داری کسی گروہ نے قبول نہیں کی تھی"۔

'غیر معمولی حکمتِ عملی'

انٹیلیجنس کے اہلکار نے کہا کہ "دولتِ اسلامیہ" (داعش) علاقے میںافغان طالبان کے مرکزی حریف کے طور پر سامنے آ رہی ہے اور گزشتہ کچھ مہینوں میں طالبان کو نشانہ بنانے والے حملوں میں سے اکثریت کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی"۔

ایسی غیر مصدقہ خبریں بھی موجود ہیں کہ افغان طالبان کے گروہ کے اندر ایسے عناصر جو اعلی قیادت کی سرگرمی سے خوش نہیں تھے، ان میں سے کچھ حملوں کے پیچھے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ "طالبان پر بڑھتے ہوئے حملے،افغانستان میں امن کے عمل کے امکانات کے بارے میں مزید تشویش پیدا کرنی کی وجہ بن سکتے ہیں"۔

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے سیںئر دفاعی تجزیہ نگار ڈاکٹر راشد احمد نے کہا کہ "افغان طالبان پر ہونے والے یہ حالیہ حملے ایک غیر معمولی حکمتِ عملی کا حصہ لگتے ہیں۔ میرے خیال میں افغان طالبان کے راہنماؤں کو نشانہ بنانے والے عناصر افغان امن کے عمل کو کامیاب ہوتا نہیں دیکھنا چاہتے"۔

انہوں نے کہا کہ "طالبان اور امریکہ کی حکومت کے درمیان جاری مذاکرات میں قابلِ قدر پیش رفت ہوئی ہے اس لیے لگتا ہے کہ طالبان مخالف دھڑے امن کے عمل کو تباہ کرنے کی کوششوں میں ملوث ہیں"۔

انہوں نے مزید کہا کہ "حالیہ حملوں میں افغان طالبان کے راہنماؤں کی ہلاکت طالبان کی تحریک کے لیے بڑا دھچکا ہے"۔

افغان معاملات پر، کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار ندیم خان نے طالبان کے اندرونی جھگڑوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ "افغان طالبان پر حملوں کی مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں مگر ایک وجہ ان کی پرانی دشمنی ہے"۔

انہوں نے کہا کہ "افغانستان میں، طالبان بہت مضبوط اور دشمنوں کی پہنچ سے باہر ہیں مگر پاکستان میں وہ اتنے محفوظ نہیں ہیں"۔ انہوں نے مزید کہا کہ عسکریت پسندوں پر حملے گروہ کی طرف سے افغانستان کے مختلف علاقوں میں کیے جانے والے دہشت گردی کے کاموں کا ردعمل بھی ہو سکتے ہیں۔

عسکریت پسندوں کا مقابلہ

خان نے کہا کہ "میری رائے میں، افغانستان اور پاکستان کی حکومتوں کے درمیان انتہائی عدم اعتمادی کا موجود ماحولعلاقائی امن کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ دونوں ہمسایہ ممالک کو اپنی پالیسیوں پر دوبارہ سے غور کرنا چاہیے"۔

انہوں نے کہا کہ "پاکستان کے لیے یہ درست وقت ہے کہ وہ ان گروہوں کے خلاف سخت قدم اٹھائے جو دونوں ہمسایہ ملکوں میں امن کو تباہ کر رہے ہیں"۔

بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی نائب صدر ملک عبدل ولی نے کہا کہ "پاکستان کے لیے، یہ انتہائی تشویش کا معاملہ ہے کہ افغان طالبان کے عسکریت پسند بلوچستان میں مدرسے چلا رہے ہیں۔ اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ ان مدرسوں کو ممکنہ طور پر جنگجوؤں کو بھرتی کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جا رہا ہے"۔

انہوں نے کہا کہ "ہم اپنی سرزمین پر غیر ملکی عناصر کی جنگ کے متحمل نہیں ہو سکتے اس لیے، ہماری غیر ملکی پالیسی کو اس معاملے پر دوبارہ غور کرنے کی ضرورت ہے۔ عسکریت پسندوں کے مکمل خاتمے کے بغیر، حکومت ملک میں دیرپا امن کے مقصد کو حاصل نہیں کر سکتی"۔

ولی نے کہا کہ "افغان طالبان ہماری زمین کو اپنے اسٹریجک ڈیزائن کے لیے استعمال کر رہے ہیں اور ان کی موجودگی کے باعث، ہمارے مقامی شہریوں کی زندگیاں بھی خطرے میں ہیں۔ میری رائے میں، کسی کو بھی ہماری زمین پر کسی غیر ملکی وجہ کے لیے مدرسہ چلانے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500