جرم و انصاف

باجوڑ کے رہائشیوں کی جانب سے پہلی عدالتی کاروائیوں کا خیرمقدم

حنیف اللہ

26 جون کو خار، ضلع باجوڑ میں ضلعی عدالتوں کے لیے ایک نشان دیکھا جا سکتا ہے۔ [حنیف اللہ]

26 جون کو خار، ضلع باجوڑ میں ضلعی عدالتوں کے لیے ایک نشان دیکھا جا سکتا ہے۔ [حنیف اللہ]

خار – باجوڑ کے رہائشی اس ضلع اور قبائلی علاقہ جات میں پہلی عدالتی کاروائیوں پر شاداں ہیں۔

12 مارچ کو ہمسایہ دیر زیریں میں تشکیل کے کچھ ہی عرصہ بعد باجوڑباقاعدہ عدالتوں کا حاملپہلا سابقہ قبائلی ضلع بن گیا۔

ضلعی انتظامیہ نے 28 جون کو عدلیہ کی تسہیل کی، اور یہ تب سے باجوڑ کے ہیڈکوارٹرز، خار میں کام کر رہی ہے۔

یہ نئی عدالتیں سابقہ وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا)، جو 2018 میں خیبرپختونخوا میں ضم ہو گئے، کو مرکزی دھارے میں لائے جانے کا جزُ ہیں۔ اب تک فاٹا میں کوئی عدالتی نظام موجود نہیں تھا۔

قبل ازاں قبائلی ارکان ایک سفاکانہ، جداگانہ قانونی نظام،نوآبادیاتی دور کے فرنٹیئر کرائمز ریگولیشنز (ایف سی آر)، کے تحت زندگیاں گزار رہے تھے، جسے انضمام نے ختم کر دیا۔

پشاور کی عدالتِ عالیہ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ نے ایک بیان میں کہا، "باجوڑ نے مقدم ضلعی عدلیہ کا حامل ہونے کا اعزازجیت لیا۔ یہ درحقیقت ایک تاریخی واقعہ ہے کیوں کہ اب باجوڑ کے رہائشیوں کو تمام آئینی حقوق حاصل ہوں گے۔"

باجوڑ کے عمائدین اور دیگر رہائشیوں نے ضلع میں نچلی عدالتوں کی تشکیل کا خیرمقدم کیا۔

قومی اسمبلی کے ایک سابق رکن اور ایک قبائلی عمائد شہاب الدین خان نے کہا، "یہ میری 22 سالہ سیاسی پیشہ ورانہ زندگی کا بنیادی مقصد تھا، اور الحمداللہ ہم نے اسے حاصل کر لیا—اب کوئی بھی بالائے قانون نہیں ہو گا۔"

انہوں نے تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی جانب سے تشکیل دی گئی غیرقانونی "شرعی عدالتوں"، جن کی وجہ سے اور زیادہ تنازعات پیدا ہو گئے، کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وقت کے ساتھ ساتھ قبائلی علاقوں میں قبائلی نظامِ عدلیہ (جرگہ) ساقط ہو گیا اور عسکریت پسندوں نے اپنی عدالتیں تشکیل دے لیں۔

’کوئی بھی فیصلہ‘ چیلنج ہو سکتا ہے

خان نے کہا، "ہم عدالتوں کی تشکیل سے خوش ہیں۔ قبائلی باشندے بھی ملک کے دیگر شہریوں کی طرح عدالت سے مستفید ہو سکتے ہیں۔"

باجوڑ سے تعلق رکھنے والے ایک سینیئر وکیل اکرام درّانی نے اتفاق کرتے ہوئے مزید کہا کہ اب قبائلی اضلاع کے باشندے "ضلعی انتظامیہ کے کسی بھی فیصلہ کو عدالتوں میں چیلنج کر سکتے ہیں۔"

انہوں نے کہا کہ فاٹا کے کے پی میں انضمام کا سبب بننے والی 25 ویں ترمیم سے قبل تعینات کیے گئے پولیٹیکل ایجنٹ، جو فاٹا پر حکمرانی کرتے تھے، کا فیصلہ چیلنج نہیں ہو سکتا تھا۔

درّانی نے کہا کہ اب، قانون کے مطابق، ضلع انتظامیہ کی جانب سے گرفتار کیے گئے شخص کو 24 گھنٹوں کے اندر عدالت کا سامنا کرنا ہو گا۔

انہوں نے حکام کو افراد کے جرائم پر پورے قبیلے کو ذمہ دار ٹھہرانے کی اجازت دینے والے قاعدہ کا حوالہ دیتے ہوئے مزید کہا، "25 ویں ترمیم کے نفاذ کے بعد، انتظامیہ کسی شخص کو اجتماعی ذمہ داری کی بنا پر گرفتار نہیں کر سکتی۔"

انہوں نے کہا کہ 25 ویں ترمیم کے نفاذ کے بعد سے، زیریں اور اعلیٰ عدالتوں نے 30 سے زائد ایسے قیدیوں کو رہا کر دیا جنہیں حکام نے ایف سی آر کی خلاف ورزی کرنے پر 10 تا 14 برس قید کی سزا سنائی تھی۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 2

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

حج پرواز کوئٹہ پہچنے پر حاجی صاحبان کا استقبال کیا گیا

جواب

اچھی خبر. اطلاع دینے کے لیے شکریہ. حنیف اسے جاری رکھیں.

جواب