سلامتی

کے پی نے یومِ شہدا پولیس پر ہلاک ہونے والے افسران کی قربانیوں کی عزت افزائی کی

جاوید خان

لیویز فورسز 4 اگست 2019 کو باجوڑ کے قبائلی ضلع میں شہید ہونے والے پولیس افسران کو خراجِ عقیدت پیش کر رہی ہیں۔ [حنیف اللہ]

لیویز فورسز 4 اگست 2019 کو باجوڑ کے قبائلی ضلع میں شہید ہونے والے پولیس افسران کو خراجِ عقیدت پیش کر رہی ہیں۔ [حنیف اللہ]

پشاور -- پولیس یومِ شہدا کے موقع پر، خیبر پختونخواہ (کے پی) پولیس، عام لوگوں اور اہلکاروں نے اتوار (4 اگست) کو ان پولیس افسران کو خراجِ عقیدت پیش کیا جنہوں نے خدمات سرانجام دیتے ہوئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے۔

سینئر سپریٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) آپریشنز پشاور ظہور بابر آفریدی، اپنے افسران کے ساتھ، صبح سویرے صفوت غیور کی قبر پر پہنچے تاکہ ملک میں امن کے لیے ان کی قربانیوں کو خراجِ تحسین پیش کر سکیں۔

غیور، جو کہ پاکستان کے سب سے زیادہ اعزازات رکھنے والے پولیس اہلکار تھے، کو 4 اگست 2010 کو ان کے دفتر کے باہر، خودکش دھماکے میں ہلاک کر دیا گیا تھا۔

2015 کے آغاز سے، ان کی برسی کو یومِ شہدا پولیس کے طور پر منایا جاتا ہے۔

پشاور پولیس کے سینئر اہلکار، 4 اگست کو کے پی پولیس کے شہید ہونے والے ہیروز کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے، صفوت غیور کی قبر کو سلامی پیش کر رہے ہیں۔ [پشاور پولیس]

پشاور پولیس کے سینئر اہلکار، 4 اگست کو کے پی پولیس کے شہید ہونے والے ہیروز کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے، صفوت غیور کی قبر کو سلامی پیش کر رہے ہیں۔ [پشاور پولیس]

کوہاٹ روڈ پر شہید ہونے والے پولیس افسران کی تصاویر والے ایک کتبے کو دیکھا جا سکتا ہے۔ پولیس یومِ شہدا کے موقع پر پشاور بھر میں ایسے کتبوں کی بڑی تعداد کو نصب کیا گیا تھا۔ [جاوید خان]

کوہاٹ روڈ پر شہید ہونے والے پولیس افسران کی تصاویر والے ایک کتبے کو دیکھا جا سکتا ہے۔ پولیس یومِ شہدا کے موقع پر پشاور بھر میں ایسے کتبوں کی بڑی تعداد کو نصب کیا گیا تھا۔ [جاوید خان]

ڈپٹی انسپکٹر جنرل آف پولیس (ڈی آئی جی) قاضی جمیل الرحمان، جنہوں نے ان تقریبات کو منظم کرنے میں مدد کی تھی، کہا کہ "ہم نے یومِ شہداِ پولیس کے موقع پر 24 جولائی سے پروگراموں کو ایک سلسلہ شروع کیا تھا جو 4 اگست کو پشاور میں ایک بڑی تقریب کے ساتھ ختم ہوا"۔

پشاور میں مرکزی تقریب کے دوران، اعلی سیاسی راہنماؤں، پولیس افسران اور دیگر نے شہید ہونے والے ہیروز اور ان کے اہلِ خاندان کو خراجِ عقیدت پیش کیا۔

رحمان نے کہا کہ "ہم نے یومِ شہداِ پولیس کے موقع پر، خون کے عطیات کے کیمپ، واکس اور سیمینار منعقد کیے تاکہ صوبہ اور باقی ملک کے شہید ہونے والے افسران اور فوجیوں کو خراجِ عقیدت پیش کیا جا سکے"۔

کے پی کی ہر ڈسٹرکٹ میں بھی پولیس افسران نے واکس، قرآن خوانی اور شہدا کی قبروں کو سلام پیش کرنے کا انتظام کیا تھا۔

خاندانوں کی مدد

1970 سے اب تک، کے پی پولیس کے 1،700 افسران خودکش حملوں، بم دھماکوں، ٹارگٹ کلنگز اور مجرموں اور دہشت گردوں کے ساتھ مقابلوں میں ہلاک ہو چکے ہیں۔

کے پی پولیس کے ترجمان شہزادہ کوکب فاروق نے کہا کہ "1970 سے1999 کے دوران 285 پولیس اہلکار ہلاک ہوئے تھے جبکہ 2000 سے اب تک 1،434 شہید ہوئے ہیں"۔

انہوں نے مزید بتایا کہ سب سے بدترین سال 2009 کا تھا جب 207 پولیس افسران شہید ہوئے تھے۔

انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی پی) محمد نعیم خان نے کہا کہ کے پی پولیس نے شہید ہونے والے پولیس افسران کے اہلِ خاندان کی مدد کرنا جاری رکھا ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ "ہمیں ان سب پر فخر ہے جنہوں نے اپنی جانوں کی قربانی پیش کی ہے"۔

خان نے کہا کہ "تمام ڈی پی اوز (ڈسٹرکٹ پولیس افسران) کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ ہمارے ہیروز کے اہلِ خاندان کا زیادہ سے زیادہ خیال رکھیں"۔

شہید ہونے والے افسران کے خاندانوں کو معاوضے کا ایک پیکیج ملتا ہے جس میں ان کے عہدے کے حساب سے اضافہ ہوتا ہے۔ ڈی آئی جی رحمان کے مطابق، خدمات سرانجام دیتے ہوئے ہلاک ہونے والے کانسٹیبل کو تقریبا 10 ملین روپے (62،000 ڈالر) ملتے ہیں۔

رحمان نے کہا کہ "اس کے علاوہ، ہر ڈسٹرکٹ میں ایک خصوصی سیل قائم کیا گیا ہے جو خاندانوں کو مفت تعلیم، طبی معالجے اور دیگر سہولیات کی فراہمی کو یقینی بناتا ہے"۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہلاک ہونے والے کے بچے یا بھائی کو عمومی طور پر اسسٹنٹ سب انسپکٹر کے طور پر بھرتی کیا جاتا ہے اور شہید ہونے والے افسر کے خاندان کو اس کی 60ویں سالگرہ تک اس کی تنخواہ ملتی رہتی ہے۔

'بے مثال قربانیاں'

کے پی کے وزیراعلی محمود خان نے 4 اگست کو جاری کیے جانے والے ایک سرکاری بیان میں کہا کہ "پولیس نے امن کی بحالی اور گزشتہ چند سالوں کے دوران عوام کی جانوں اور املاک کی حفاظت کے لیے، دیگر فورسز کے ساتھ مل کر، بے مثال قربانیاں دی ہیں"۔

خان نے کہا کہ "ہم شہدا کے خاندانوں کو کبھی اکیلا نہیں چھوڑیں گے اور ان کا زیادہ سے زیادہ خیال رکھیں گے"۔

کے پی کے وزیرِ معلومات شوکت علی یوسف زئی نے 2 اگست کو ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ "کے پی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ابھی بھی فرنٹ لائن ہے جبکہ کے پی پولیس ابھی بھی فرنٹ لائن فورس ہے"۔

انہوں نے مزید کہا کہ پولیس اور فوج کے علاوہ، لیویز فورس اور وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقوں میں خاصہ داروں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بہت قربانیاں دی ہیں۔

عوامی نیشنل پارٹی کے سیکریٹری جنرل میاں افتخار حسین نے کہا کہ پولیس اور دیگر فورسز کی قربانیوں نے ملک میں امن کی بحالی کو ممکن بنایا ہے۔

حسین نے کہا کہ مشکل حالات کے بعد، "یہ پولیس اور دیگر فورسز کی قربانیوں کے باعث ہی ہوا ہے کہ حالات اب کافی زیادہ بہتر ہیں"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 2

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

اچھا

جواب

میں سندھ پولیس میں کام کرتا ہوں

جواب