پشاور -- پاکستانی حکومت ملک کے ریلوے کے شعبے کو بہتر بنانے کی اپنی کوششوں کو بڑھا رہا ہے اور اس مقصد کے لیے مختلف راستوں پر مزید کم کرایے کی تیز رفتار گاڑیاں چلا رہا ہے۔
ریلوے کے وفاقی وزیر شیح رشید احمد نے 7 جولائی کو اعلان کیا کہ توقع ہے کہ وزیراعظم عمران خان لاہور -میانوالی نیازی ایکسپریس ٹرین کا افتتاح 19 جولائی کو کریں گے۔
یہ تقریب عمران خان کی طرف سے مارچ میں جناح ایکسپریس اور اس ماہ کے آغاز میں کراچی جانے والی نان اسٹاپ سرسید ایکسپریس کے بعد ہو گی۔
ایک اور ایکسپریس ٹرین، رحمان بابا ایکسپریس نے بھی گزشتہ دسمبر میں کام کرنا شروع کیا تھا اور اس کے کرایوں کو مقصد، کم آمدن والے کارکنوں کو متوجہ کرنا تھا۔ اس ٹرین سے کراچی اور پشاور کے درمیان کا سفر کم ہو کر 26 گھنٹے ہو گیا جو کہ اس کے مقابلے میں کم رفتار کی ٹرینوں پر تقریبا 32 گھنٹوں کا ہے۔
پاکستانی شہری، سیکورٹی میں بہتری اور حکومت کی طرف سے انتہاپسندوں کو قابو میں کیے جانے کے بعد سے، ملک کے اندر سفر کرنے کے لیے ٹرینوں کا استعمال زیادہ کر رہے ہیں۔
اسی دوران، حکومت ان شعبوں کو جیسے کہ نقل و حمل کو دوبارہ سے ترقی دینے کی کوشش کر رہی ہے جنہیں عسکریت پسندی نے متاثر کیا تھا۔
رشید احمد نے دسمبر میں رحمان بابا ایکسپریس کے آغاز کے موقع پر ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ تجارت کو بڑھانے اور کاروباری برادری کو فائدہ پہنچانے کے لیے مسافر ٹرینوں کی تعداد کو بڑھانا منصوبے کا حصہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ "اس تجارتی برادری کے لیے آٹھ سے 10 سبک رفتار اور مال گاڑیاں شروع کی جائیں گی جو اکثر لاہور، فیصل آباد، راولپنڈی اور پشاور سے کاروباری گڑھ، کراچی جاتے ہیں۔ اس سے ریلوے کے شعبہ کی مالی حالت بہتر ہو گی کیونکہ حاصل شدہ آمدنی سے وہ قرضے چکانے میں مدد ملے گی جو پاکستان میں ریلوے کے شعبے نے حاصل کر رکھے ہیں"۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کراچی سے پشاور تک نئے ٹریک بچھانے کا ارادہ بھی رکھتی ہے اور دلچسپی رکھنے والے فریقین میں اس سال معاہدے پر دستخط کر دیں گے۔
احمد نے مزید کہا کہ اس لائن سے ملک کی اہم منزلوں کے درمیان سفر کا وقت کم ہو جائے گا۔
ملک کے ریلوے کے نظام کو بہتر بنانے پر توجہ دینے کا نتیجہ پہلے ہی حاصل ہو رہا ہے۔
احمد نے اگست سے اکتوبر 2018 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان ریلوے کے مال گاڑیوں کے شعبے میں منافع، پاکستان تحریک انصاف کے پہلے ساٹھ دنوں میں، اس سے ایک سال پہلے کے مقابلے میں، 1.2 بلین روپوں ( 7.6 ملین ڈالر) تک بڑھ گیا۔ اس دورانیے کا منافع 6.9 بلین روپے ( 43.5 ملین ڈالر) تھا جو کہ اس سے ایک سال پہلے کے اسی دورانیے میں 5.7 بلین روپے (35.9 ملین ڈالر) تھا۔
ریزرویشن کا نیا نظام
لاہور میں پاکستان ریلوے کے انفرمیشن افسر اعجاز شاہ نے کہا کہ نئی پیش رفت جس میں ٹکٹوں کی سخت نگرانی بھی شامل ہے، نے نقصان کو روکنے میں مدد دی ہے اور ہونے والی بچت سے ریل کے نئے منصوبے شروع کرنے کا راستہ ہموار ہو گا۔
شاہ نے کہا کہ ریلوے کی نگرانی کی ٹیموں نے ایسے مسافروں سے 320 بلین روپے (2 ملین ڈالر) اکٹھے کیے ہیں جو 2018 کی آخری چوتھائی میں بغیر ٹکٹ کے سفر کر رہے تھے۔
شاہ نے کہا کہ پاکستان ریلوے کا نقصان 3662 بلین روپے سے کم ہو کر 10 ماہ میں 32.59 بلین روپے (232 ملین ڈالر سے 206 ملین ڈالر) ہو گیا ہے اور حکام کراچی اور لاہور کے ریلوے اسٹیشنوں کی مرمت پر 125 ملین روپے ( 791,000 ڈالر) کرنے کا منصوبہ رکھتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ "مسافروں کی مدد اور انہیں متوجہ کرنے کے لیے، ہماری ریزرویشن کی سہولیات کی فراہمی کو ہفتے کے ساتوں دن اور 24 گھنٹوں تک بڑھا دیا گیا ہے۔ کام کرنے کے ان اوقات کو بڑھانے سے نومبر میں ریلوے کی طرف سے فروخت کی جانے والی ٹکٹوں میں 41،000 کا اضافہ ہوا ہے"۔
انہوں نے کہا کہ ریلوے کے حکام نے 75 اور اس سے بڑی عمر کے سینئر شہریوں کے لیے مفت سفر کے ایک پروگرام کا آغاز کیا ہے جبکہ 60 سے 74 سال کی عمر کے مسافر کرایے میں 50 فیصد رعایت حاصل کر سکتے ہیں۔
شاہ نے کہا کہ یہ نئی پیش رفتیں حکومت کی طرف سے عام پاکستانیوں کو ٹرینوں کے استعمال میں مدد فراہم کرنے کے لیے شروع کیے جانے والے پرجوش منصوبے کا حصہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ "ہم نے مسافروں کو بہتر سہولیات فراہم کرنے کے لیے بڑے ریلوے اسٹیشنوں کو جدید بنانے اور ان کی بحالی کا کام شروع کیا ہے۔ تمام بڑے اسٹیشن اور ٹرین جنکشن جیسے کہ روہڑی کو ترقی یافتہ ممالک کے اسٹیشنوں پر مہیا سہولیات سے مماثل سہولیات سے لیس کیا جائے گا"۔
پشاور سے تعلق رکھنے والے ایک تاجر جو کہ پاکستان ریلوے سے اکثر سفر کرتے رہتے ہیں، نے کہا کہ "ایک ترقی یافتہ ریلوے کا نظام ایسا سبب رہا ہے جس نےتجارتی اور معاشی سرگرمیوں کے فروغمیں کردارادا کیا ہے"۔
انہوں نے کہا کہ "مال کی بر وقت اور محفوظ و سستی ترسیل ایسے دو عناصر ہیں جنہیں کاروباری افراد کی طرف سے اجناس کا آرڈر کرتے ہوئے سب سے زیادہ ترجیح دی جاتی ہے. یہ مطالبات صرف ایک جدید، تیز رفتار اور قابلِ استطاعت ریلوے کے نظام سے ہی پورے ہو سکتے ہیں۔"
داد نے کہا کہ پشاور سے کراچی تک زمینی رستے سے سفر کرنے کے لیے کم از کم تقریبا 32 گھنٹے لگتے ہیں اور کاروباری افراد کے لیے اتنے عرصے کے لیے کام سے دور رہنا ممکن نہیں ہوتا۔
داد جو کہ ایس آئی ٹی ای انڈسٹریل ایریا میں واقع ایک فیکٹری سے کپڑا اور ہوزری کا سامان خریدنے کے لیے اکثر کراچی جاتے رہتے ہیں، نے کہا کہ کم کرایے اور تیز رفتار کی رحمان بابا ایکسپریس لائن کے آغاز کو ان کاروباری افراد کی طرف سے خوش آمدید کہا گیا ہے جو وقت کی قدر کرتے ہیں مگر فضائی سفر کی استطاعت نہیں رکھتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ "ہم بہتر ترقی کے امکانات کو دیکھ سکتے ہیں جو کہ مستقبل میں سامان کی تیز رفتار اور بر وقت فراہمی سے حاصل ہو سکتے ہیں"۔