سلامتی

پاکستان داعش-کے کے اثر ورسوخ کو کم کرنے جبکہ دہشت گرد تعلیم یافتہ نوجوانوں کو بھرتی کرنے کی کوشش میں

ضیاء الرحمان

پیراملٹری رینجرز یکم مئی کو کراچی میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ "دولتِ اسلامیہ" کی خراسان شاخ (داعش-کے) کے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کی کوشش میں، پاکستانی حکام مختلف محاذوں پر عسکریت پسند گروہ پر کریک ڈاؤن کر رہے ہیں۔ ]ضیاء الرحمان[

پیراملٹری رینجرز یکم مئی کو کراچی میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ "دولتِ اسلامیہ" کی خراسان شاخ (داعش-کے) کے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کی کوشش میں، پاکستانی حکام مختلف محاذوں پر عسکریت پسند گروہ پر کریک ڈاؤن کر رہے ہیں۔ ]ضیاء الرحمان[

کراچی -- پاکستان "دولتِ اسلامیہ" کی خراسان شاخ (داعش-کے) کے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کی کوششوں میں اضافہ کر رہا ہے اور تعلیمی اداروں میں ممکنہ بھرتی کاروں پر خصوصی توجہ دے رہا ہے۔

اس سال کے آغاز میںعراق اور شام میں داعش کی علاقائی شکست کے بعد سے،تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ دہشت گرد تنظیم اپنی توجہ کا مرکز پاکستان اور افغانستان کی طرف منتقل کر رہی ہے۔

پاکستان میں، داعش -کے نے مسلمان اقلیتوں جیسے کہ شعیہ اور صوفیوں کو نشانہ بنا کر گروہ کے فرقہ ورانہ کشیدگی پھیلانے کے حربے کو استعمال کرنا شروع کیا ہے۔

اسلام آباد میں قائم تھنک ٹینک پاک انسٹی ٹیوٹ آف پیس اسٹڈیز (پی آئی پی ایس) کے مطابق، پاکستانی حکام نے بلوچستان اور سندھ صوبہ کے شمال میں داعش کی نسبتا زیادہ موجودگی کو محسوس کیا ہے جہاں فرقہ ورانہ تقسیم موجود ہے۔

تاہم، 28 فروری کو داعش- کے کے دو اہم راہنماؤں مولوی عبداللہ بروہی اور عبدل حفیظ پندرانیکی صوبہ بلوچستان کے علاقے سبی میں ہلاکتوں کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے ایک بڑی کامیابی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

شکارپور پولیس چیف ساجد عامر سادوزئی نے کہا کہ بروہی اور پندرانی، صوبہ سندھ میں داعش کے بالترتیب سربراہ اور نائب سربراہ تھے۔ وہ 2010 سے صوبہ سندھ اور بلوچستان میں بہت سے دہشت گردانہ حملوں میں ملوث ہونے پر مطلوب تھے۔

داعش - کے غالباً ایسا واحد عسکریت پسند گروہ ہے جس کے خلاف حکومتی اہلکاروں، شہریوں اور فوج نے متفقہ طور پر کھلم کھلا بات کی ہے۔ یہ بات اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے پی آئی پی ایس سے تعلق رکھنے والے سیکورٹی کے تجزیہ کار محمد اسماعیل خان نے کہی۔

انہوں نے ایک انٹرویو میں کہا کہ "تقسیم کا واحد معاملہ صرف یہ ہے کہ آیا داعش - کے پاکستان میں موجود ہے یا اس کا آغاز پاکستان سے ہوا ہے۔ کچھ کا کہنا ہے کہ یہ مقامی نہیں ہے اور صرف ایک برانڈ کا نام ہے جبکہ دوسروں کا کہنا ہے کہ یہ ایک خطرہ ہے۔ مگر سب کا اتفاق اس بات پر موجود ہے کہ داعش-کے سے نپٹنے کی ضرورت ہے"۔

داعش کے نوجوانوں پر نظریں رکھے ہوئے

پاکستانی حکام، داعش-کے کی طرف سے تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے نوجوانوں کو بھرتی کرنے کی کوششوں کا مقابلہ کرنے کے لیے بہت سے محاذوں پر کام کر رہے ہیں۔

داعش -کے پر کریک ڈاون کرنے میں ملوث قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کے انٹرویوز سے پتہ چلتا ہے کہ دہشت گرد گروہ -- پہلے سے موجود مقامی عسکریت پسند گروہوں سے بھرتی کرنے کے ساتھ ساتھ -- یونیورسٹی کے طلباء اور پیشہ ور افراد کو اپنے تخریبی حملوں، چندہ جمع کرنے اور پروپیگنڈا کے کاموں کے لیے بھرتی کرنے پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔

انسدادِ دہشت گردی کے ایک سینئر انٹیلیجنس افسر جنہوں نے اپنا نام خفیہ رکھنے کی درخواست کی، کیونکہ انہیں ذرائع ابلاغ سے بات کرنے کا اختیار نہیں ہے، کہا کہ "داعش-کے نے مسلمان نوجوانوں کو بہکا کر عسکریت پسندی میں شامل ہونے کے لیے تیار کرنے کے لیے سوشل میڈیا اور مقامی کالجوں اور یونیورسٹیوں میں مباحثے کے چھوٹے گروہ کے ذریعے، بہت سے طریقے استعمال کیے ہیں"۔

انہوں نے ایک انٹرویو میں کہا کہ، بہت حال تک قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور لشکرِ جھنگوئی کے ساتھ منسلک دہشت گردوں کو گرفتار کر رہی تھیں جن کے ارکان میں سے اکثریت غیر تعلیم یافتہ یا مدرسوں سے تعلیم پانے والی تھی۔

انہوں نے کہا کہ "اب ہمیں ایسے دہشت گردوں کا سامنا ہے جو انتہائی تعلیم یافتہ ہیں۔ ہمیں ان یونیورسٹیوں کے معاملات پر نظر رکھنی ہو گی جہاں سے انہوں نے اپنی ڈگریاں حاصل کی ہیں"۔

مثال کے طور پر، سندھ یونیورسٹی جو کہ جامشورو میں حکومت کے زیرِ انتظام چلنے والی یونیورسٹی ہے، نے 20 مئی کو نورین لغاری، جو کہ ماضی میں داعش میں شمولیت اختیار کرنے والی طالبہ ہیں، کے عارضی داخلے کو، اس بنیاد پر منسوخ کر دیا کہ وہ دوسرے طلباء کے لیے خطرہ ہو سکتی ہیں۔

اپریل 2017 میں، لغاری جو اس وقت لیاقت یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز (لمز) جو کہ اسی ڈسٹرکٹ میں حکومت کے زیرِ انتظام چلنے والا میڈیکل اسکول ہے، میں دوسرے سال کی طالبہ تھیں کو لاہور میں داعش -کے، کے سیل پر فوجی چھاپے کے بعد گرفتار کیا گیا تھا۔

مقامی ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والے ایک انٹرویو کے مطابق، اس نے ایسٹر کے دوران ایک چرچ پر خودکش حملہ کرنے کی نیت سے لاہور جانے کا اعتراف کیا تھا۔

پولیس نے بعد میں لغاری کو رہا کر دیا اور کہا کہ وہ دوبارہ بحالی کے عمل سے گزری ہے اور داعش نے اسے دھوکا دیا تھا۔

تاہم، رہائی کے بعد لمز نے اس کے داخلے کو منسوخ کر دیا تھا۔ پھر اس نے گزشتہ نومبر میںسندھ یونیورسٹی میں انگلش ڈپارٹمنٹ میں داخلہ لیا۔ مگر جب یونیورسٹی کو اس کے ماضی کا پتہ چلا تو اس نے اس کے داخلے کو منسوخ کر دیا۔

خوشحال اور تعلیم یافتہ کو نشانہ بنانا

خوشحال اور تعلیم یافتہ پاکستانی نوجوانوں کی طرف سے داعش میں شامل ہونے کے بہت سے دوسرے دستاویز شدہ واقعات، خبروں میں آتے رہے ہیں۔

سعد عزیز ایک اور مثال ہیں، وہ کراچی انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن کے گریجوئٹ تھے۔ انہوں نے داعش سے متاثر ہونے والے "اعلی تعلیم یافتہ" مجرموں کے ایک مقامی گروہ میں شمولیت اختیار کی۔

عزیز جس کی عمر 27 سال تھی، نے کراچی میں بہت سی دہشت گردانہ سرگرمیوں میں شمولیت کا اعتراف کیا جس میں مئی 2015 میں سرفروش گوٹھ کے قرب و جوار میں اسماعیلی برادری کے تقریبا 45 ارکان کو ہلاک کرنا اور اپریل 2015 میں سماجی کارکن اور انسانی حقوق کی سرگرم کارکن سبین محمود کا قتل بھی شامل ہے۔

ایک عدالت نے 2016 میں اسے سزائے موت سنائی۔ وہ ابھی بھی حراست میں ہے۔

کراچی پولیس نے 15 اپریل کو داعش -کے، کے چار ارکان کو تاثیر ٹاون کے قرب وجوار سے گرفتار کیا تھا۔

ملیر ڈسٹرکٹ کے پولیس چیف عرفان بہادر کے مطابق، گرفتار شدہ افراد سوشل میڈیا کے ذریعے رنگروٹ، خصوصی طور پر نوجوانوں کو بھرتی کرنے اور انہیں داعش - کے میں شامل ہونے کے لیے مختلف مراعات دینے میں ملوث تھے۔

بہادر نے کہا کہ "ان کے قبضے سے ہم نے دستی بم، ہتھیار، گولیاں اور لیپ ٹاپ قبضے میں لیے"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500