حقوقِ نسواں

کے پی اسمبلی کے تاریخی انتخابات کے لیے خواتین امیدوار، ووٹرز باہر نکلنے کے لیے تیار

از جاوید خان

پشاور میں ایک پولنگ اہلکار گزشتہ 25 جولائی کو عام انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے بعد ایک خاتون ووٹر کے انگوٹھے پر انمٹ سیاہی کا نشان لگاتے ہوئے۔ 20 جولائی کو کے پی اسمبلی کی نشستوں کے لیے پہلے سے زیادہ خواتین انتخاب لڑیں گی۔ [جاوید خان]

پشاور میں ایک پولنگ اہلکار گزشتہ 25 جولائی کو عام انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے بعد ایک خاتون ووٹر کے انگوٹھے پر انمٹ سیاہی کا نشان لگاتے ہوئے۔ 20 جولائی کو کے پی اسمبلی کی نشستوں کے لیے پہلے سے زیادہ خواتین انتخاب لڑیں گی۔ [جاوید خان]

پشاور -- توقع کی جا رہی ہے کہ سابقہ وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا) سے تعلق رکھنے والی خواتین ووٹرز اور امیدواروں کی ایک بڑھتی ہوئی تعداد خیبر پختونخوا (کے پی) اسمبلی میں نئے ضم کردہ اضلاع کی نمائندہ نشستوں کے لیے 20 جولائی کو انتخابات کے لیے باہر نکلے گی۔

ان انتخابات میںسنہ 2018 میں فاٹا کے صوبے کے ساتھ انضمام کے بعد پہلی بار سابقہ قبائلی علاقہ جات کو نمائندگیملے گی۔

یہ انتخاب اصل میں 2 جولائی کو ہونا تھا مگر صوبائی حکومت کی جانب سے درخواست کرنے کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اس کی تاریخ آگے کر دی تھی۔

آئندہ انتخابات میں، تقریباً 2.7 ملین ووٹرز، جن میں سے تقریباً 1 ملین خواتین ہیں، اپنا حقِ رائے دہی استعمال کرنے کے اہل ہیں۔ اہل ووٹروں کی سب سے زیادہ تعداد باجوڑ میں ہے جو کہ 522،480 ہے، جس کے بعد ضلع خیبر میں ووٹروں کی تعداد 519،290 ہے۔

20 جون کو ضلع خیبر میں انتخابی مہم کے دوران اے این پی کی امیدوار ناہید آفریدی (درمیان میں) کے حامی ان پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کرتے ہوئے۔ ناہید آفریدی حلقہ پی کے-106 کی نمائندگی کے لیے انتخاب میں حصہ لے رہی ہیں۔ [شہباز بٹ]

20 جون کو ضلع خیبر میں انتخابی مہم کے دوران اے این پی کی امیدوار ناہید آفریدی (درمیان میں) کے حامی ان پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کرتے ہوئے۔ ناہید آفریدی حلقہ پی کے-106 کی نمائندگی کے لیے انتخاب میں حصہ لے رہی ہیں۔ [شہباز بٹ]

پی کے-106 کی امیدوار ناہید آفریدی (دائیں سے دوسری) 20 جون کو ضلع خیبر کے علاقے جمرود میں ایک حجرے میں ووٹروں سے خطاب کرتے ہوئے۔ [شہباز بٹ]

پی کے-106 کی امیدوار ناہید آفریدی (دائیں سے دوسری) 20 جون کو ضلع خیبر کے علاقے جمرود میں ایک حجرے میں ووٹروں سے خطاب کرتے ہوئے۔ [شہباز بٹ]

16 عام نشستوں کے لیے براہِ راست انتخاب ہو گا، جبکہ خواتین کے لیے چار اور اقلیتوں کے لیے ایک نشست مخصوص ہے جو ایک سیاسی جماعت کی جانب سے جیتی گئی عام نشستوں کی تعداد کی متناسب نمائندگی کے ذریعے پُر کی جائیں گی۔

چار مخصوص نشستوں کے لیے کُل 30 خواتین امیدوار مدِ مقابل ہیں۔ ان میں شمالی اور جنوبی وزیرستان، کرم، اورکزئی، خیبر، مہمند اور باجوڑ کے اضلاع سے تعلق رکھنے والی خواتین شامل ہیں اور چھ خواتین فاٹا کی سابقہ سب ڈویژنوں سے تعلق رکھتی ہیں۔

تین خواتین عام نشستوں کے لیے بھی انتخاب لڑ رہی ہیں، جس میں خیبر، مہمند اور اورکزئی قبائلی اضلاع سے ایک ایک خاتون شامل ہے۔ نو امیدوار، بشمول ایک خاتون، نے اقلیتوں کے لیے مخصوص ایک نشست کے لیے کاغذاتِ نامزدگی جمع کروائے ہیں۔

عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) ایک خاتون امیدوار کو کھڑا کر رہی ہے جو ضلع خیبر سے عام نشست کے لیے مقابلہ کریں گی۔

جماعت کے صوبائی صدر، ایمل ولی خان نے ایک بیان میں کہا، "اے این پی کو فخر ہے کہ اس نے کے پی کے قبائلی اضلاع میں آئندہ انتخابات کے لیے ایک خاتون پارٹی ورکر، ناہید آفریدی کو، حلقہ پی کے-106 سے اپنی امیدوار کے طور پر کھڑا کیا ہے۔"

خواتین کی حوصلہ افزائی

ضلع خیبر کی سب ڈویژن لنڈی کوتل سے جمعیت علمائے اسلام (فضل) (جے یو آئی-ایف) کی امیدوار ثریا خان نے ایک ویڈیو پیغام میں کہا، "میں خواتین اور عام عوام کی بہبود کے لیے، خصوصاً تعلیم اور صحت کے شعبوں میں کام کروں گی۔"

انہوں نے قبائلی علاقوں کی خواتین کو انتخابی عمل میں بھرپور شرکت کرنے کے لیے کہا۔

سماجی اور ثقافتی روایات نے ماضی میں خواتین کو ووٹ ڈالنے سے روکے رکھا ہےپاکستان میں عموماً اور کے پی میں خصوصاً۔

قومی وطن پارٹی کی ایک سینیئر سیاستدان، نیلم گگیانی، نے ایک انٹرویو میں کہا، "یہ حوصلہ افزاء بات ہے کہ خواتین امیدواروں کو ٹکٹ جاری کیے گئے ہیں اور وہ نشستوں کے لیے براہِ راست" اور قبائلی علاقوں سے مخصوص نشستوں کے لیے بھی مقابلہ کریں گی۔

انہوں نے کہا، ابھی بھی، مزید خواتین امیدواروں کو آئندہ انتخابات کے لیے ٹکٹ ملنے چاہیئے تھے اور حکام کو چاہیئے کہ خواتین کی ووٹ ڈالنے کے لیے حوصلہ افزائی کرنے کی مزید کوششیں کریں۔

گگیانی نے کہا، "قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والی مزید خواتین کو سیاست اور پارلیمنٹ میں لانے میں کچھ وقت لگے گا۔"

انہوں نے کہا کہ مزید جماعتوں کو چاہیئے کہ جن علاقوں میں ان کا اچھا ووٹ بینک ہے وہاں سے عام نشستوں کے لیے مزید خواتین امیدواروں کو کھڑا کریں۔

گگیانی نے کہا، "مجھے سابقہ فاٹا سے مزید خواتین کو پارلیمنٹ میں آتے دیکھنے اور مزید خواتین کو اپنے ووٹ ڈالتے دیکھنے کی امید ہے۔"

ضلع خیبر میں لنڈی کوتل سے تعلق رکھنے والے ایک 45 سالہ تاجر، حاکم خان شینواری نے کہا، "سابقہ فاٹا کے مکینوں کے لیے پورا عمل ایک عظیم سنگِ میل ہے۔"

شینواری نے کہا، "یہ پہلی مرتبہ ہو گا کہ قبائلی اضلاع کی خواتین کو مخصوص اور عام نشستوں کے ذریعے پارلیمنٹ میں نمائندگی ملے گی۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500