سلامتی

قبائلی باشندوں کا کے پی کے ساتھ انضمام کے نتیجے میں پہلے پولیس تھانے کا خیرمقدم

از سید عنصر عباس

10 جون کو جنوبی وزیرستان کے باشندے وانا میں پہلے پولیس تھانے کے سامنے سے گزرتے ہوئے۔ [بشکریہ سید عنصر عباس]

10 جون کو جنوبی وزیرستان کے باشندے وانا میں پہلے پولیس تھانے کے سامنے سے گزرتے ہوئے۔ [بشکریہ سید عنصر عباس]

پشاور -- مئی کے اواخر میں حکومتِ خیبرپختونخوا (کے پی) نے وانا، جنوبی وزیرستان میں تاریخ کے پہلے مکمل طور پر فعال پولیس تھانے کا افتتاح کیا ہے، ایک ایسا اقدام جس کا قبائلی عمائدین اور ضلع کے باشندوں کی جانب سے خیرمقدم کیا گیا ہے۔

تھانے کا افتتاح کے پی حکومت کے مارچ کے مہینے میں سابقہ وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا) کے ضم کردہ اضلاع اور سرحدی علاقوں میںکُل 25 پولیس تھانےقائم کرنے کی منظوری دینے کے بعد ہوا ہے۔

جنوبی وزیرستان سکاؤٹس کے کمانڈنٹ، کرنل محمد اعجاز نے 15 جون کو پولیس تھانے کا افتتاح کیا۔

صوبے کے دیگر حصوں میں پولیس فورس کے برعکس، قبائلی رسوم و روایات کے مطابق، قبائلی اضلاع کے پولیس اہلکار بطور وردی سیاہ شلوار قمیض پہنیں گے۔

پولیس حکام 10 جون کو جنوبی وزیرستان میں پہلے پولیس تھانے کے اندر بیٹھے ہیں۔ [بشکریہ سید عنصر عباس]

پولیس حکام 10 جون کو جنوبی وزیرستان میں پہلے پولیس تھانے کے اندر بیٹھے ہیں۔ [بشکریہ سید عنصر عباس]

کے پی پولیس کے ترجمان، کوکب فاروق نے کہا کہ پولیس تھانہ فرنٹیئر کور کی جانب سے خالی کیے گئے قلعے میں قائم کیا گیا ہے۔

فاروق نے کہا، "وانا پولیس تھانہ مکمل طور پر فعال ہے اور علاقوں میں گشت شروع ہو چکا ہے۔ بھرتی ہونے والے مزید اہلکاروں کو تربیت دی جا رہی ہے یہ یقینی بنانے کے لیے کہ امن و امان کی صورتحال قابو میں رہے۔"

مارچ میں کے پی حکومت نے کہا تھا کہ خیبر، مہمند، کرم، شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان میں سے ہر ایک کو تین پولیس تھانے ملیں گے۔ باجوڑ اور اورکزئی میں سے ہر ایک کو دو پولیس تھانے ملیں گے، جبکہ درہ زندہ، جندولہ، حسن خیل، درہ آدم خیل، وزیر اور بھتانی کے سابقہ سرحدی علاقوں کے لیے ایک ایک پولیس تھانے کی منظوری دی گئی ہے۔

لادا میں ایک مقامی صحافی، فاروق محسود نے کہا کہ قبائلی باشندے وانا میں پہلا پولیس تھانہ ملنے کو سراہتے ہیں۔

انہوں نے کہا، "قبائلی باشندے حکومت کی جانب سے پولیس تھانے کے قیام پر مطمئن ہیں۔ ہم قبائلی اضلاع میں ایسے مزید پولیس تھانے اور تربیت یافتہ پولیس اہلکار چاہتے ہیں۔"

سنہ 2018 میںقبائلی اضلاع کے کے پی کے ساتھ انضمام سے برطانوی دور کے استعماریفرنٹیئر رائمز ریگولیشن (ایف سی آر) اور توسیعی قوانین کا خاتمہ ہوا تھا جو باقی ماندہ ملک کے برعکس پورے قبائلی اضلاع میں مؤثر تھے۔

وانا بازار میں ایک جوتا فروش، جانداد وزیر نے کہا کہ جب اس نے پہلا پولیس تھانہ دیکھا تو وہ بہت جذباتی ہو گیا تھا۔

انہوں نے کہا، "یہ ہمارا خواب تھا، جو اب حقیقت بن گیا ہے۔"

وزیر نے کہا، "امید ہے کہ پولیس کو کام پر کسی دباؤ کا سامنا نہیں ہو گا؛ ہماری قبائلی روایات کی وجہ سے جرائم کی شرح بہت کم ہے۔ ہم اس نئے انتظام کی کامیابی کے لیے دعاگو ہیں۔"

فاٹا کے بعد سیکیورٹی

شمالی وزیرستان میں پی کے 112 میرانشاہ میں صوبائی اسمبلی کے ایک امیدوار ملک غلام وزیر نے کہا کہ قبائلی باشندوں نے ایف سی آر کے خاتمے کے لیے ایک طویل جنگ لڑی ہے اور قبائلی پٹی کے مکین "جنوبی وزیرستان میں تاریخ کے پہلے پولیس تھانے کو دیکھ کر مطمئن ہیں۔"

نوجوانانِ شمالی وزیرستان تنظیم کے ایک ترجمان، اسد اللہ شاہ داوڑ نے کہا کہ مقامی پولیس کے ذریعے ایسے قوانین کا اطلاق ہونا جو باقی ماندہ ملک میں بھی نافذ ہیں، خطے کے نوجوانوں کے لیے ایک اگلا قدم ہے۔

داوڑ نے کہا کہ فاٹا کے زمانے میں، "ہم ایک احساسِ کمتری کا شکار تھے۔ اب، ہم پاکستان کے دیگر حصوں کے باشندوں کی طرح قانون کے تابع ہونے پر مطمئن ہیں۔"

داوڑ نے قبائلی اضلاع میں مزید پولیس تھانوں کے قیام کا مطالبہ کیا۔

شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی، رسول داوڑ نے کہا کہ پولیس تھانے کا قیام کے پی میں نئی انتظامی تشکیل کی جانب پیش قدمی کرنے کا ایک اہم جزو ہے۔

انہوں نے کہا کہ دوسری طرف، "ہم ایماندار، خوب تربیت یافتہ پولیس اہلکاروں سے لیس مزید پولیس تھانے چاہتے ہیں جو قبائل کے ساتھ مہارت سے نمٹ سکیں اور معمول کی امن و امان کی صورتحال کو برقرار رکھ سکیں۔"

جنوبی وزیرستان سے ایک رکنِ قومی اسمبلی، محمد جمال الدین نے کہا کہ وہ وانا میں پولیس تھانے کے قیام کا خیرمقدم کرتے ہیں مگر انہوں نے حکومت کی جانب سے اصلاحات پر آگے بڑھنے کی ضرورت پر زور دیا۔

انہوں نے کہا، "اگرچہ ہم قبائلی ضلع میں پولیس تھانہ فراہم کرنے پر حکومت کے شکرگزار ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ جلد از جلد قبائلی اضلاع کے لیے دیگر اصلاحات کا اطلاق کیا جائے۔"

جمال الدین نے مزید کہا کہ پولیس ایک خوب مسلح اور مکمل طور پر تربیت یافتہ محکمہ ہے، اور قبائلی باشندے پُرامید ہیں کہ مستقبل میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہو جائے گی۔ قبائلی باشندے حکومتی رٹ کو برقرار رکھنے کے لیے نئے محکمہ [پولیس] کے ساتھ تعاون کریں گے۔"

عسکریت پسندی سے نمٹنا

ضلع باجوڑ سے تعلق رکھنے والے ایک رکنِ قومی اسمبلی، گل داد خان نے کہا کہ قبائلی باشندے قبائلی اضلاع میں نئے پولیس تھانے کے حامی ہیں، جو کہ ناصرف امن و امان کو یقینی بنائے گا بلکہ علاقے میں عسکریت پسندی سے لڑنے میں بھی مدد دے گا۔

ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا، "پولیس خوب تربیت یافتہ، تعلیم یافتہ ہے اور قبائلی باشندوں کو ہم آہنگی کے ساتھ سنبھالنے کے لیے علاقے کے قانون کو سمجھتے ہوئے امن و امان قائم رکھنے کے قابل ہے۔"

خان نے کہا کہ ان کی اچھی تنخواہ، ایک باقاعدہ پولیس محکمے کے جزو کے طور پر ترقی اور حیثیت کے امکانات کی وجہ سے، "پولیس اہلکار ان لیویز کے مقابلے میں اپنے کام سے پوری طرح مخلص ہوں گے، جو اچھی طرح تربیت یافتہ نہیں تھے۔"

انہوں نے کہا، "ہمیں امید ہے کہ قبائلی اضلاع میں پولیس تھانوں کی تکمیل کے بعد حکومتی رٹ قائم ہو جائے گی۔ قبائلی علاقوں میں پولیس تھانوں اور پولیس محکمے کی موجودگی سے، ہم خطے میں ممکنہ عسکریت پسندی کے خاتمے کو یقینی بنانے کے قابل ہوں گے"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500