معاشرہ

یوتھ انیشیٹیو ملازمت کے مواقع میں اضافے، انتہاپسندی کی کشش کو کم کرنے کی کوشش کر رہا ہے

اشفاق یوسفزئی

طلبا 2015 میں ملتان کی بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی میں اکٹھے ہوئے ہیں۔ ]فاروق نعیم/ اے ایف پی[

طلبا 2015 میں ملتان کی بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی میں اکٹھے ہوئے ہیں۔ ]فاروق نعیم/ اے ایف پی[

پشاور -- پاکستانی حکومت نے ایک نیا پروگرام شروع کیا ہے جس کا مقصد بے روزگار اور غربت کے شکار نوجوانوں کے لیے نئے کاروبار اور ملازمت کے مواقع میں اضافہ کرنا ہے اور انہیں انتہاپسندوں کی طرف سے ممکنہ طور پر بھرتی کیے جانے سے دور رکھنا ہے جو زدپذیر شہریوں کو شکار بناتے ہیں۔

وزیراعظم عمران خان نے 16 مئی کو 100 بلین (674 ملین ڈالر) کے وزیراعظم کامیاب نوجوان پروگرام کی منظوری دی جس کا مقصد پاکستانی نوجوانوں کو ملازمت کے مواقع، تعلیم اور پیشہ ورانہ صلاحیتیں فراہم کرنا ہے۔ یہ خبر ڈان نے دی ہے۔

اس پروگرام کے حصہ کے حصہ کے طور پر، نوجوانوں کو کم شرح سود پر قرضے میسر ہوں گے جن سے نوجوانوں کو چھوٹے کاروبار شروع کرنے میں مدد ملے گی۔ ڈان نے یہ بات خان کی ترجمان فردوس عاشق اعوان کے بیان کے حوالے سے بتائی۔

انہوں نے مزید کہا کہ نوجوان 5 ملین روپوں (33,700 ڈالر) تک کے قرضوں کے لیے درخواست دینے کے قابل ہوں گے جبکہ قرضوں کے اس انیشیٹیو کا ایک حصہ خصوصی طور پر خواتین کے لیے مخصوص ہو گا۔

پاکستانی شہری 2019 کے آغاز میں پشاور یونیورسٹی کے ایک سیمینار میں شرکت کر رہے ہیں۔ ]پشاور یونیورسٹی[

پاکستانی شہری 2019 کے آغاز میں پشاور یونیورسٹی کے ایک سیمینار میں شرکت کر رہے ہیں۔ ]پشاور یونیورسٹی[

اعوان نے کہا کہ "وزیراعظم کا خیال ہے کہ نوجوان ملک کی ریڑھ کی ہڈی ہیں کیونکہ وہ ملک کی کل آبادی کا 65 فیصد حصہ ہیں۔ یہ پروگرام نوجوانوں کو ملازمت کے مواقع فراہم کرے گا اور ملک میں اقتصادی سرگرمیوں کو بڑھائے گا"۔

انتہاپسندوں کی طرف سے بھرتی کو ناکام بنانا

ماضی میں غربت نے ملک میں انتہاپسندی کو بڑھانے میںمدد کی ہے کیونکہ دہشت گردوں نے کمزور شہریوں کو نشانہ بنایا جیسے کہ غریب نوجوان -- اور انہیں اپنے متشدد مقاصد کے لیے استعمال کیا۔

سیکورٹی کے تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ان کوششوں کے ذریعے، alleviate youth unemployment and poverty -- حکومت عسکریت پسندوں کی طرف سے مایوس شدہ نوجوانوں کو بھرتی کرنے کی صلاحیت کا خاتمہ کر رہی ہے۔

پشاور سے تعلق رکھنے والے سیکورٹی کے تجزیہ کار برگیڈیر (ریٹائرڈ) محمود شاہ نے ایک انٹرویو میں کہا کہ "ہم نے عسکریت پسندوں کو بے روزگار نوجوانوں کو جنگجوؤں اور خودکش بمباروں کے طور پر استعمال کرتے ہوئے دیکھا ہے کیونکہ انہیں بہکانا آسان تھا۔ نوجوانوں کو قرضے دینے سے انہیں کام کرنے اور اپنے اہلِ خاندان کے لیے روزی کمانے کے قابل بنایا جا سکے گا"۔

انہوں نے کہا کہ ایسے قدم سے "عسکریت پسندوں کے لیے بھرتی کے وسائل کا خاتمہ ہو جائے گا جو غربت پر انحصار کرتے ہیں اور غریبوں کو حکومت مخالف سرگرمیوں میں ملوث کرتے ہیں"۔

شاہ نے مزید کہا کہ حکومت کے نئے پروگرام سے نوجوانوں کے بہتر مسقبل کو یقینی بنایا جا سکے گا خصوصی طور پر نئی ابھرنے والے قبائلی اضلاع میں جو کہ مقامی عسکریت پسندوں کو پیدا کرنے کے لیے مشہور تھیں۔

مردان سے تعلق رکھنے والے ایک ریٹائرڈ بینکار آصف خان نے حکومت کے انیشیٹیو کی تعریف کی کیونکہ ملک کے بہت سے نوجوان اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بع بھی بے روزگار رہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ "ماضی میں، ایسے منصوبے تھے مگر عوام ان سے فائدہ نہیں اٹھا پاتے تھے کیونکہ شرح سود بہت زیادہ تھی اور قرضے لینے کے لیے شرائط بہت سخت تھیں۔ اس منصوبے میں، قرضہ لینے والوں کو آسان شرائط پر سرمایہ فراہم کیا جائے گا"۔

خان نے کہا کہ اس منصوبے سے عسکریت پسندوں کی طرف سے نوجوانوں کی بھرتی کو ناکام بنانے میں مدد ملے گی۔

انہوں نے کہا کہ "طالبان کے عسکریت پسندوں نے بے روزگار نوجوانوں کو بھرتی کیا ہے جنہیں وہ مسلح افواج اور شہریوں کے خلاف دہشت گردی کے کام کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ایسے پروگراموں کے ذریعے، ہم دہشت گردی کے خاتمے اور معاشی طور پر اپنے نوجوانوں کو ترقی دینے کا مقصد حاصل کر سکتے ہیں"۔

'نوجوانوں کے لیے ایک رحمت'

پشاور سے تعلق رکھنے والے پچیس سالہ محمد ریئس نے کہا کہ انہوں نے بزنس ایڈمنسٹریشن میں اپنی ماسٹرز ڈگری مکمل کی ہے اور وہ اس پروگرام کے ذریعے قرضہ لینے کے مشتاق ہیں۔

انہوں نے کہا کہ "میں قرضے سے کپڑوں کا کاروبار شروع کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ اس سے میرے سارے خاندان کو فائدہ ہو گا۔ میں اپنے کاروبار میں ایک درجن کارکن بھرتی کروں گا۔ میرے بہت سے دوستوں نے حکومت کے منصوبے کو خوش آمدید کہا ہے اور وہ بھی اپنا کاروبار شروع کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں"۔

شمالی وزیرستان قبائلی ڈسٹرکٹ کے ایک طالبِ علم محمد نمیر نے کہا کہ وہ حکومت کے اس انیشیٹیو پر بہت خوش ہے۔

انہوں نے کہا کہ "یہ قبائلی اضلاع کے نوجوانوں کے لیے ایک رحمت ہے کہ وہ دہشت گردی سے اتنا زیادہ نقصان اٹھانے کے بعد اپنا مسقبل خود بنا سکیں گے۔ ماضی میں، ہمارے ہزاروں نوجوان تھوڑے سے پیسوں کے لیے طالبان کے عسکریت پسندوں کے ساتھ شامل ہو گئے تھے"۔

پشاور یونیورسٹی سے گریجوئٹ کرنے والے 22 سالہ نمیر نے کہا کہ وہ قرضہ لینے کے بعد، مانسہرہ میں نئے تعمیر ہونے والے بازار میں کریانے کی دکان کھولنے کا منصوبہ رکھتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ "میرے دوست اس پروگرام کے آغاز کا بیتابی سے انتظار کر رہے ہیں جو کہ ممکنہ طور پر قبائلی علاقے میں نوجوانوں کا مستقبل بدل دے گا"۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 4

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

مجھے یہ پسند آیا

جواب

نہایت خوب

جواب

زبردست

جواب

بہت اچھی پالیسی اداپٹ کی ھے اگر اس پر عمل ھوسکے نوجوان منفی سرگمیوں دے دور رھینگے اپنے کاروبار میں مشغول رھینگے ۔ ھمارا اپنا ارادہ ھے کہ گورنمنٹ کے اس پروگرام سے کچھ پیسے لے اور اپنے کاروبار کو وسیع کرے۔

جواب