دہشتگردی

اضافی سلامتی کا مقصد کوئٹہ کی ہزارہ برادری کے خلاف فرقہ ورانہ حملوں کو شکست دینا ہے

اے ایف پی

18 اپریل کو پاکستانی نیم فوجی سپاہی شعیہ ہزارہ اقلیت کے تاجروں اور ان کے پھل اور سبزیوں کو لے جانے والی گاڑیوں کو ایک منڈی سے کوئٹہ کے نواح میں بھاری طور پر تحفظ شدہ علاقہ میں ان کی رہائش کی جانب جاتے ہوئے تحفظ فراہم کر رہے ہیں۔ [بنارس خان / اے ایف پی]

18 اپریل کو پاکستانی نیم فوجی سپاہی شعیہ ہزارہ اقلیت کے تاجروں اور ان کے پھل اور سبزیوں کو لے جانے والی گاڑیوں کو ایک منڈی سے کوئٹہ کے نواح میں بھاری طور پر تحفظ شدہ علاقہ میں ان کی رہائش کی جانب جاتے ہوئے تحفظ فراہم کر رہے ہیں۔ [بنارس خان / اے ایف پی]

کوئٹہ – مسلح ناکوں کے حصار میں پرہجوم اقلیتی محلوں میں پاکستان کی شعیہ ہزارہ برادری کا کہنا ہے کہ انہیں کوئٹہ میں فرقہ ورانہ عسکریت پسند قتل کر رہے ہیں۔

کئی برسوں سے شعیہ برادری کے سینکڑوں ہزاروں ارکان دو مختلف احاطوں میں محصور ہیں جنہیں متعدد ناکے اور سینکڑوں مسلح نگہبان حلقہ کیے ہوئے ہیں اور جن کا مقصد اس اقلیت کو پر تشدد عسکریت پسندوں سے بچانا ہے۔

ہزارہ کے ایک فعالیت پسند بوستان علی نے اس احاطے کے اندر کی صورتِ حال کے بارے میں کہا، "یہ ایک جیل کی طرح ہے۔"

شعیہ برادری کی موجودگی بالخصوص کوئٹہ میں مضبوط ہے، جہاں فرقہ ورانہ تشدد، خودکش حملے اور ڈکیتیاں عام ہیں۔

تکنیکی طور پر ہزارہ افراد کوئٹہ میں آزادانہ گھوم پھر سکتے ہیں، تاہم حملوں کے خوف سے کم ہی لوگ ایسا کرتے ہیں۔

اس گروہ کو مزید تحفظ فراہم کرنے کی غرض سے تاجروں اور منڈی کے فروشندوں کو اپنے علاقوں سے نکلتے وقت مسلح نگرانی بھی فراہم کی جاتی ہے، جبکہ کہا جاتا ہے کہ جاری عسکری آپریشنز شورش زدہ صوبوں میں عسکریت پسندوں کو ہدف بناتے ہیں۔

گزشتہ ماہ سبزی منڈی میں ہونے والے ایک بم حملے، جس کی ذمہ داری "دولتِ اسلامیہٴ" (داعش) نے قبول کی، میں 21 افراد ہلاک ہو گئے اور 47 مزید زخمی ہو گئے – جن میں زیادہ تر متاثرین کی شناخت ہزارہ کے طور پر کی گئی۔

یہ اس گروہ کو ہدف بنانے والے حملوں کے ایک طویل سلسلہ میں تازہ ترین حملہ تھا، جس میں 2013 کے اوائل میں اوپر تلے ہونے والے حملے بھی شامل ہیں جن میں اس کے تقریباً 200 ارکان ہلاک ہو گئے۔ افغان سرحد کے ساتھ بھی صورتِ حال ہزارہ مساجد، سکولوں اور برادری کی تقریبات پر شورشیوں کے مسلسل حملوں سے زیادہ نہیں تو ویسی ہی خطرناک ضرور ہے۔

بھاری سیکیورٹی اقدامات

ہزارہ افراد اپنے وسط ایشیائی خدوخال کے ساتھ بالخصوص زدپزیر ثابت ہوئے ہیں، جس سے یہ سنّی عسکریت پسندوں کے لیے آسان اہداف بن جاتے ہیں جو انہیں دشمن سمجھتے ہیں۔

کوئٹہ میں موجود دو احاطوں میں سے ایک – ہزارہ ٹاؤن کے داخلی راستہ پر ہر روز ایک ہیبت ناک منظر ہوتا ہے جب ہزارہ افراد منڈیوں سے خوراک خریدنے کے لیے شہر جانے والے ٹرکوں کی ایک طویل قطار میں تنگ ہو کر بیٹھ رہے ہوتے ہیں۔

وہاں پہنچنے کے بعد بھاری طور پر مسلح کانوائے میں گھروں کو واپس لوٹنے سے قبل سامان خریدتے وقت وہ سپاہیوں میں محصور رہتے ہیں۔

حکام بضد ہیں کہ یہ اقدامات ضرورت ہیں۔

صورتِ حال سے واقف ایک پاکستانی سیکیورٹی ذریعہ، جس نے نام ظاہر نہ کرنے کا کہا، کے مطابق، گزشتہ پانچ برسوں میں صرف کوئٹہ میں 500 ہزارہ افراد قتل ہو چکے ہیں اور دیگر 627 زخمی ہوئے ہیں۔

پہلے ہی سے بھاری سیکیورٹی اقدامات کی موجودگی کے ساتھ، حکام صورتِ حال کو بہتر بنانے کے لیے منڈیوں میں سرویلنس کیمرازنصب کرنے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں۔

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 1

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

پشتون پاکستان میں دہشت گردی کا اصلی نشانہ ہیں۔ ہزارہ برادری کے لوگ شام اورعراق میں ایران کے تنخواہ دار جنگجو ہیں ۔ ان کے دہشت گرد گروہوں کا نشانہ بننے کی یہی وجہ ہے

جواب