مذہب

طالبان کی جانب سے پاک-افغان سرحد کی دونوں جانب ہردلعزیز مزارات ہدف

سلیمان

بنا تاریخ کی اس تصویر میں، غزنی کے افغان شہر کے نواح میں شمس العارفین مزار کے باقیات دیکھے جا سکتے ہیں۔ [گورنر غزنی کا پریس آفس]

بنا تاریخ کی اس تصویر میں، غزنی کے افغان شہر کے نواح میں شمس العارفین مزار کے باقیات دیکھے جا سکتے ہیں۔ [گورنر غزنی کا پریس آفس]

کابل – طالبان کی جانب سے ثقافتی ورثہ سے گستاخانہ رویہ نہ صرف پاکستان تک محدود ہے، بلکہ یہ افغانستان میں بھی موجود ہے، جہاں اس گروہ نے حال ہی میں علاقہ کے اہم ترین ثقافتی اور تاریخی مقامات میں سے ایک کو تباہ کر دیا۔

غزنی کے افغان صوبہ سے ایک حکومتی ترجمان، محمّد عارف نوری نے کہا، "یکم مئی کو طالبان نے کئی سو برس قدیم مزار کو دھماکہ خیز مواد کے ذریعہ تباہ کر دیا۔"

نوری نے کہا کہ گزشتہ برس کے دوران یہ غزنی میں طالبان کی جانب سے گرایا جانے والا چوتھا مزار ہے۔

انہوں نے کہا، "اس مزار کو شمس العارفین کہا جاتا تھا، اور یہ غزنی شہر کے نواح میں موجود تھا۔۔۔ روزانہ ملک بھر سے زائرین یہاں آتے تھے۔"

"اس مزار کو صوبہ غزنی کے تاریخی اور ثقافتی مقامات میں سے ایک سمجھا جاتا تھا، لیکن طالبان جنگجوؤں نے اسے دھماکہ خیز مواد کے ذریعے تباہ کر دیا۔"

انہوں نے کہا، "601 ہجری (1204 عیسوی) میں وفات پانے والے شمس العارفین ایک عظیم روحانی اور صوفی عالم تھے اور معاشرے میں نہایت قابلِ احترام تھے۔"

قابل میں ایک سیاسی تجزیہ کار اراش شہرپور نے کہا کہ طالبانعلاقائی غیرملکی انٹیلی جنس ایجنسیوںکے احکامات پر افغانستان کی تہذیب و ثقافت کے عکاس ورثے کو تباہ کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا، "اسلامی اور افغان ثقافت اور ہمارے ایمان کے اندر مزارات کا ایک خاص مقام ہے۔"

انہوں نے کہا، "علاقائی ممالک افغانستان کے دہشمن ہیں ۔۔۔ اور وہ نہیں چاہتے کہ ہمارا ملک اپنے ثقافتی اور تاریخی ورثہ کو محفوظ بنائے۔ طالبان علاقائی انٹیلی جنس ایجنسیوں سے ہمارے ثقافتی ورثہ اور تاریخی اشیاء کو تباہ کرنے کے احکامات لیتے ہیں۔"

طالبان کی جانب سے پاکستان میں باقاعدگی سے کی جانے والی سرگرمیوں میں سے ایک تازہ ترین مثال میں ایکطالبان خودکش حملہ آور نے 8 مئی کو لاہور میں جنوبی ایشیا کے سب سے بڑے صوفی مزاروں میں سے ایک، 11 ہویں صدی کے داتا دربار پر حملہ کیا۔

اسلامی ثقافت کے لیے ’گستاخانہ رویہ‘

علما کے مطابق، شریعت پر مبنی کوئی حکم مسلمانوں کے مزارات اور قبروں کی تباہی کی اجازت نہیں دیتا، اور علمائے دین اس تباہی کو ایکغیر اسلامی اقدامتصور کرتے ہیں۔

ایک عالمِ دین اور کابل میں یونیورسٹی کے لیکچرار محمّد سلیم حسنی نے سلام ٹائمز سے بات کرتے ہوئے کہا، "طالبان نے اسلام کی غلظ تشریح کی ہے۔"

انہوں نے کہا، "ان کا خیال ہے کہ مزارات اور مقاماتِ مقدسہ غیر اسلامی ہیں، لیکن طالبان کا یہ قیاس مکمل طور پر غلط فہمی ہے۔ مزارات، مقاماتِ مقدسہ اور مقدس اشیا غیر اسلامی نہیں کیوں کہ یہ ہمارے ملک کی ثقافت، تہذیب اور قدیم تاریخ کی نمائندگی کرتے ہیں۔"

حسنی نے کہا، "مسلم مزارات اور قبروں اور مقاماتِ عبادت اور ثقافتی ورثہ کو تباہ کرنا اسلام میں ممنوع ہے۔"

کابل میں ایک سول سوسائٹی فعالیت پسند فرہاد حاشمی نے کہا کہ طالبان کے اقدامات اس عسکریت پسند گروہ کی اسلام دشمنی کا ایک اور ثبوت ہیں۔

انہوں نے سلام ٹائمز سے بات کرتے ہوئے کہا، "مزارات میں معروف افغان اور مسلمان کردار مدفون ہیں۔"

انہوں نے کہا، "تمام مزارات – اور بالخصوص صوبہ غزنی کے مزارات – اسلامی ثقافت اور تہذیب کا جزُ ہیں۔ طالبان نہ صرف اسلامی ثقافت اور تہذیب، بلکہ افغان ثقافت اور تاریخی ورثہ کے بھی دشمن ہیں۔"

کابل کے ایک 23 سالہ رہائشی اور جامعہ کابل میں شعبہٴ علومِ شریعہ کے ایک طالبِ علم فرید جامی نے کہا، "مزارات مسلمانوں کے لیے مقاماتِ مقدسہ ہیں۔ ہمارے لوگ مزارات کے لیے خاص عقیدت رکھتے ہیں، اور وہ ان مقامات کی زیارت اور انہیں محفوظ کرنے کو انسانی اور اسلامی فریضہ سمجھتے ہیں۔"

جامی نے سلام ٹائمز سے بات کرتے ہوئے کہا، "لیکن طالبان، جو مسلمان ہونے کے داعی ہیں، مزارات اور مساجد کو دھماکوں سے اڑا دیتے ہیں۔"

انہوں نے کہا، "ان کا یہ جرم ناقابلِ معافی ہے۔" انہوں نے مزید کہا کہ یہ "مذہبی مقامات اور اسلامی ثقافت کے لیے بد ترین گستاخانہ سوچ کا مظاہرہ ہے۔"

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 0

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500