سلامتی

مشاہدین کے مطابق دہشت گردی سے جنگ کے لیے پاکستان-ایران مشترکہ فورس "متضاد" ہے

پاکستان فارورڈ اور اے ایف پی

ایرانی مرد 16 فروری کو اصفہان میں اپنے رشتہ داروں کی تصاویر اٹھائے ہوئے ہیں جو سپاہِ پاسداران انقلابِ اسلامی (آئی جی آر سی) کے ارکان تھے اور 13 فروری کو شہر میں ہونے والے خودکش دھماکے میں ہلاک ہو گئے تھے۔ آئی جی آر سی نے سرکاری ٹی وی پر نشر ہونے والے ایک تبصرے میں "پاکستان کی سیکورٹی فورسز" پر بم دھماکے کے مرتکب افراد کی مدد کرنے کا الزام لگایا۔ ]عطا کناری/ اے ایف پی[

ایرانی مرد 16 فروری کو اصفہان میں اپنے رشتہ داروں کی تصاویر اٹھائے ہوئے ہیں جو سپاہِ پاسداران انقلابِ اسلامی (آئی جی آر سی) کے ارکان تھے اور 13 فروری کو شہر میں ہونے والے خودکش دھماکے میں ہلاک ہو گئے تھے۔ آئی جی آر سی نے سرکاری ٹی وی پر نشر ہونے والے ایک تبصرے میں "پاکستان کی سیکورٹی فورسز" پر بم دھماکے کے مرتکب افراد کی مدد کرنے کا الزام لگایا۔ ]عطا کناری/ اے ایف پی[

تہران -- مشاہدین کا کہنا ہے کہ پاکستان اور ایران کے درمیان مشترکہ سرحدی ردِعمل کی فورس بنانے کے لیے کیا جانے والا حالیہ معاہدہ ایران کی طرف سے دہشت گردی کو سپانسر کیے جانے میں کردار کے باعث "متضاد" ہے۔

ایران کے صدر حسن روحانی نے 22 اپریل کو اعلان کیا کہ انہوں نے پاکستان کے دورہ پر آئے ہوئے وزیراعظم کے ساتھ سرحدی فورس قائم کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

دونوں ممالک کے درمیان سرحد کی دونوں اطراف پر ہونے والے حملوں کے باعث کئی مہینوں سے کشیدگی میں اضافے کے بعد، روحانی نے مشترکہ نیوز کانفرنس کو بتایا کہ "ہم نے دہشت گردی سے جنگ کرنے کے لیے سرحدوں پر مشترکہ سریع الحرکت فورس قائم کرنے پر اتفاق کیا ہے"۔

خان نے کہا کہ "سیکورٹی چیف یہاں پر اپنے ہم منصب کے ساتھ مل کر بیٹھیں گے اور سیکورٹی میں تعاون کے بارے میں بات چیت کریں گے"۔ مشترکہ فورس کے بارے میں کوئی مزید معلومات نہیں دی گئی ہیں۔

پاکستان کے وزیرِاعظم عمران خان (درمیان میں) ایران کے صدر حسن روحانی (بائیں) اور سپریم لیڈر آیت اللہ خمینی کے ساتھ 22 اپریل کو تہران میں ملاقات کر رہے ہیں۔ ]پی ٹی آئی[

پاکستان کے وزیرِاعظم عمران خان (درمیان میں) ایران کے صدر حسن روحانی (بائیں) اور سپریم لیڈر آیت اللہ خمینی کے ساتھ 22 اپریل کو تہران میں ملاقات کر رہے ہیں۔ ]پی ٹی آئی[

خان نے کہا کہ "ہم اعتماد کرتے ہیں کہ دونوں ممالک کی اپنی سرزمین پر دہشت گردی کی سرگرمیاں نہیں ہوں گی ۔۔۔ہم اپنی زمین سے آپ کے ملک کو کوئی نقصان نہیں ہونے دیں گے"۔

خان کا ایران کا دورہ جو کہ گزشتہ سال اقتدار سنبھالنے کے بعد پہلا ہے، ایک مسلح شخص کی طرف سے اپریل کے وسط میں صوبہ بلوچستان میں 14 پاکستانی سیکورٹی اہلکاروں کو ہلاک کیے جانے کے بعد، ہوا ہے۔

اے ایف پی کے مطابق، 20 اپریل کو پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان کے پاس ثبوت موجود ہے کہ "دہشت گرد گروہ" جنہوں نے یہ حملے کیے تھے کو "پاکستان کی سرحد کے ساتھ موجود ایرانی علاقوں میں موجود لاجسٹک کیمپوں میں تربیت فراہم کی گئی ہے"۔

انہوں نے مزید کہا کہ "ہم نے کیمپوں کے مقام کی شناخت اور تصدیق کے بعد، اس قابلِ عمل ثبوت کو ایران کے ساتھ سانجھا کیا ہے"۔

ایران کے سیستان- بلوچستان صوبہ میں میں 13 مارچ کو ہونے والے خودکش دھماکے کے بعد، جس میں سپاہِ پاسدارانِ انقلاب اسلامی (آئی آر جی ایس) کے 27 ارکان ہلاک ہو گئے تھے، مارچ میں، روحانی نے پاکستان سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ "ایران مخالف دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن" قدم اٹھائے۔

سیکورٹی کے لیے خطرہ

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے دفاعی تجزیہ نگار محمد نوید ظفر نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "میرے خیال میں ایران کا دوہرا معیار اور ہمسایہ ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت علاقائی سیکورٹی کے لیے بہت بڑا خطرہ ہیں"۔

"ایک ملک جو اپنے اسٹریجک مفادات کے لیےوسیع پیمانے پر دہشت گردی کو برآمد کر رہاہے کسی بھی معاہدے میں مخلص ثابت نہیں ہو سکتا"۔ انہوں نے یہ بات ایران کی طرف سے شام میں فاطمیون اور زینبیون برگیڈ کے عسکریت پسندوں اور آئی آر جی ایس جسے امریکہ نے اپریل کے آغاز میں ایک دہشت گرد گروپ قرار دیا تھا، کے حوالے سے کہی۔

ظفر نے کہا کہ "ماضی میں، پاکستان نے توانائی اور دوسرے شعبوں میں پاکستان کے ساتھ بہت سے دوسرے معاہدوں پر دستخط کیے ہیں مگر وہ سب نتائج خیز ثابت نہیں ہوئے ہیں۔ میرے خیال میں، ایران کو ایک قابلِ اعتبار شراکت دار تصور کرنے کا نتیجہ زیادہ خراب نتائج کی صورت میں نکل سکتا ہے کیونکہ اس کا متنازعہ کردار پہلے ہی شام اور دوسرے ممالک میں ہونے والی جنگ میں کافی حد تک سامنے آ چکا ہے"۔

انہوں نے بلوچستان کے قتلِ عام کا حوالہ دیتے ہوئے جس کا الزام قریشی نے ایران میں موجود دہشت گردوں پر لگایا تھا، مزید کہا کہ "ہمیں اس بات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ حال ہی میں گوادر میں، ایران میں بنیاد رکھنے والے عسکریت پسندوں نے پاکستانی سیکورٹی کے 14 اہلکاروں کو ہلاک کر دیا تھا"۔

ظفر نے مزید کہا کہ "ایران بنیادی طور پر دہشت گردی کو سپانسر کرنے والا ہےاور وہ اپنے جغرافیائی سیاسی مقاصد کے لیے ہمسایہ ممالک سے مدد حاصل کرنے کے لیے ترغیب کاری کر رہا ہے"۔

بلوچستان نیشنل پارٹی کے نائب صدر ملک عبدل ولی نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ "میری رائے میں، یہ بہت متضاد بیان ہے کہ پاکستان نے ایران کے ساتھ انسدادِ دہشت گردی کے ایک مشترکہ سرحدی طریقہ کار اور سریع الحرکت فورس کو بنانے پر اتفاق کیا ہے جسے بین الاقوامی طور پر ایک ایسا ملک قرار دیا گیا ہے جو علاقے میں عسکریت پسندی کو سپانسر کرتا ہے"۔

انہوں نے کہا کہ "اس کے امن مخالف کردار کے برعکس، ایران کے ساتھ تعلقات میں تبدیلی، پاکستان کی معیشت اور سیکورٹی کے لیے مزید مسائل پیدا کر سکتی ہے"۔

ولی نے کہا کہ "ہماری وزارتِ خارجہ نے یقین دلایا ہے کہ ایران میں بنیاد رکھنے والے عسکریت پسند ہمارے ملک کے اندر حملے کر رہے ہیں مگر وزیراعظم اس حقیقت کو نظر انداز کر رہے ہیں"۔

انہوں نے مزید کہا کہ "ایران کا شام میں کردار اور ہمسایہ ممالک پر اس کے اثر و رسوخ نے اسے کسی بھی دو طرفہ معاہدے کے لیے بہت زیادہ متنازعہ بنا دیا ہے"۔

ایران کے ساتھ تعلقات پر دوبارہ غور کرنا

کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے سرمایہ کار اور پاکستان فلاور ملز ایسوسی ایشن کے سابقہ صدر عبدل علی خان نے پاکستان فارورڈ کو بتایا کہ جہاں تک ایران کے ساتھ تجارت کا تعلق ہے "ہماری تاجر برداری کو بہت بڑے نقصانات کا سامنا ہے اور ایرانی حکام ہمارے ایوانِ صنعت و تجارت کے ساتھ اپنے وعدے پورے نہیں کر رہے ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ "ایرانی پابندیوں کے باعث، اس وقت موجود جغرافیائی سیاسی اور اقتصادی مضمرات کے باعث، پاکستان کو ایران کے ساتھ اپنے تعلقات پر دوبارہ غور کرنا چاہیے کیونکہ یہ تعلقات مسقبل میں ہماری قومی سیکورٹی کو نقصان پہنچا سکتے ہیں"۔

انہوں نے کہا کہ "ایسے پاکستانی تاجر جو ایران کے ساتھ تجارت کر رہے ہیں انہیں ادائیگیوں میں مسائل کا سامنا ہے"۔

انہوں نے مزید کہا کہ "ایرانی حکومت نے دعوی کیا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ اپنی تجارت کو بڑھانے کے لیے پاکستانی تاجروں کو سہولیات فراہم کرے گی مگر پاکستان سے درآمدات پر محصولات کو کم کرنے کی بجائے ایران نے محصولات میں اضافہ کر دیا ہے"۔

]کوئٹہ سے عبدل غنی کاکڑ نے اس رپورٹ کی تیاری میں حصہ لیا۔[

کیا آپ کو یہ مضمون پسند آیا

تبصرے 13

تبصرہ کی پالیسی * لازم خانوں کی نشاندہی کرتا ہے 1500 / 1500

Me PAF me lagna chata ho jo test hoga inshallah me doga

جواب

لاجواب

جواب

اچھا

جواب

نوید ظفر بھی اسی گروہ سے تعلق رکھتا ہے جو ایران کے خلاف ہے۔ کیوں؟ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ نوید ظفر کو یاد رکھنا چاہیئے کہ ایران دنیا کا واحد ملک ہے جو نہ صرف عراق اور شام میں مزحمت کرتا ہے بلکہ اس نے عالمی طاقتوں کے خلاف کامیابی بھی حاصل کی۔ جہاں آپ کھڑے ہیں آپ کو معلوم ہونا چاہیئے کہ آپ نے عراق اور شام میں کیا کیا؛ آپ بہتر جانتے ہیں۔ نوید ظفر جیسے نام نہاد تجزیہ کارپاکستان میں تباہی اور انتشار کا باعث ہیں۔ "مالک نہیں دوست" نے دنیا میں پاکستان کی ساکھ تباہ کی، جس نے جنرل ایوب خان کو مشورہ دیا اور جس نے تحریر کیا وہ نام نہاد تجزیہ کار اور صحافی تھا۔ جس نے جنرل مشرف کو اسلام آباد میں لال مسجد کے خلاف کاروائی کرنے کا مشورہ دیا وہ نام نہاد صحافی تھا اور جس نے بعد میں جنرل مشرف کے خلاف چلّانا شروع کر دیا۔ یہاں بھی ویسا ہی ہے؛ نوید ظفر جیسے بہت سے تجزیہ کار پاکستان کو تنہا کرنا چاہتے ہیں تاکہ دشمنانِ پاکستان 1971 کی طرح لطف اندوز ہو سکیں، لیکن اب پاکستانی ان سب کو پھاڑنے کو تیار ہیں جو پاکستان کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ ہر پاکستانی پاکستان کے تحفظ کے لیے خودکش بمبار ہے، جیسا کہ ہمارے دلیر فوجیوں نے خود کو بموں سے اڑایا اور ٹینکوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے بھارتی فوج کو شکست دی۔ افواجِ پاکستان زندہ باد! شکریہ۔

جواب

توڑنا نہایت اہم ہے

جواب

ایران دہشتگردی برآمد کرتا ہے جبکہ سعودیہ اور اسرائیل امن کے برآمد کنندہ ہیں۔ ایرانی افواج کی بربریت تو دیکھیں کہ کیسے انہوں نے عراق اور شام میں معصوم داعش اور آئی ایس آئی ایس کو دہشت زدہ کیا۔

جواب

معلوماتی، میں اس مکالہ کی حمایت کرتا ہوں۔

جواب

سعودی اور ان کے ریالوں کی کٹھ پتلیوں کو شرم آنی چاہیئے۔۔۔ ایران اپنے آغاز ہی سے واحد ملک رہا ہے جو دنیا بھر میں ان مسلمانوں کی معاونت کرتا رہا ہے جنہیں کفار اور ظالم حکمرانوں نے دبا رکھا تھا۔۔۔ پاکستان وہ ملک ہے جو دہشتگردوں کے لیے پناہ اور جائے قیام ہے۔۔۔ کیا اس ملک میں طالبان نہیں ہیں جو مسلسل پاکستان میں ہونے والے ہر قسم کے دہشتگردانہ حملوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔۔۔ انہیں ایسے حملے کرنے سے روکنے کے لیے کیوں کوئی عسکری آپریشن نہیں کیا جاتا۔۔۔ ایسا ہونے پر شرم آنی چاہیئے جو ڈالروں کے لیے اپنوں ہی کو بیچتے ہیں۔

جواب

کم علم! برائے مہربانی آپ کو اس حساس معاملہ پر مزید تحقیق کرنے کی ضرورت ہے۔

جواب

آپ جو بھی کہنا چاہتے ہیں، کیا مزید معلومات گوگل کرنے کے بعد کہ سکتے ہیں؟ میں ایک پاکستانی ہوں اور جانتا ہوں کہ ہم نے ہر دہشتگردانہ سرگرمی کے خلاف لڑائی لڑی اور جیتی ہے، خواہ اس کی منصوبہ بندی کی گئی ہو یا اس پر عمل کیا گیا ہو؛ لیکن آپ کو وضاحت کرنا وقت کا ضیاع ہے کیوں کہ آپ کے پاس جو بھی معلومات ہیں وہ بنا تحقیق کے ہیں۔

جواب

مسلمان ملکوں میں جہاں بھی دہشت گردی ہو رہی ہے اس کے تانے بانے ایران ہی سے ملتے ہیں جہاں فرقہ پرستی پائی جاتی ہے اس کے تانے بانے بھی ایران ہی سے ملتے ہیں ملکوں کو توڑنے کا اور اپنے فرقے کو طاقتور کرنے کے لئے ایران ہر وہ مدد کرتا ہے جو ایک غیر قانونی ہے بہتر یہی ہوگا کہ ایران پر سخت سے سخت پابندیاں لگا کر اس کی حرکت و سکنات کومحدود کیا جائے تاکہ مسلمان ملکوں میں جو فرقہ پرستی اور دہشت گردی ہو رہی ہے اس بار مکمل طور پر قابو پایا جاسکے ۔۔تاریخ گواہ ہے کے مسلمان ملکوں کو کمزور کرنے کا اور ان کے اندر انتشار پھیلانے کا سب سے بڑا ذریعہ ایران بنا ہے

جواب

جتنی جھوٹ بول سکتے ہو بولو ہوگا وہی جو اللہ کی مرضی ہے ساری دنیا میں تو ہم دہشتگرد ٹولے بنانے اور ایکسپورٹ کرنے میں مشھور ہیں طالبان القائدہ سپاہ صحابہ لشکر جھنگوی جیش العدل جیش محمد جنداللہ لشکر طیبہ بھی شائد ایران نے بنائے ہیں جنہوں پاکستان میں اسی ہزار پاکستانیوں کو خودکش حملوں اور بم دھماکوں میں شھید کیا

جواب

ایران دنیا میں دہشتگردوں کا سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے۔۔۔

جواب